کراچی کے عوام پر معاشی حملہ

کراچی کے عوام کو مالیاتی بحران میں مبتلا کرنے کی انوکھی تجویز سندھ حکومت کو کسی دانا نے سمجھا دی۔ سندھ حکومت نے کراچی کے عوام پر 9 ارب کا ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ بلدیہ کراچی 100 سے 200 روپے کے الیکٹرک کے ہر میٹر سے وصول کرے گی۔ حکومت سندھ اور کے الیکٹرک کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے تحت بجلی کے بل میں یہ رقم شامل ہو گی۔ کے الیکٹرک یقیناً اس رقم سے سروس چارجز بھی وصول کرے گی۔ حکومت کے پالیسی ساز ذہین اکابرین کا تخمینہ ہے کہ بلدیہ کراچی کے پاس ان بلوں میں سے مزید 9 ارب روپے وصول ہونگے۔ بلدیہ کراچی کے جواں سال ایڈمنسٹریٹر اس فیصلہ کو انقلاب کے تصور سے منسلک کر رہے ہیں۔ بلدیہ کراچی اس مختلف قسم کے 13 ٹیکس وصول کرتی ہے۔ بلدیہ اس ترکیب کے ذریعہ 2 قسم کے ٹیکس جمع کرنے کی خواہش مند ہے۔

اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کے جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلدیہ ان ٹیکسوں کی مد میں سالانہ 21 کروڑ روپے وصول کرتی ہے۔ یہ ٹیکس بلدیہ کراچی اپنے 25 لاکھ 60 ہزار صارفین سے چارج کرے گی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کن صارفین سے 100 روپے اور کن سے 200 روپے وصول کیے جائیں گے۔ بلدیہ کراچی کی زبوں حالی کی اپنی ایک داستان ہے۔ بلدیہ کراچی کا قیام پاکستان کے قیام سے پہلے ہوا۔ کراچی کا نظام چلانے کے لیے کبھی منتخب قیادت کبھی سٹی ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوتے رہے۔ منتخب قیادت اور بیوروکریسی کی زیر نگرانی بلدیہ کراچی کی کارکردگی 50ء اور 60ء کی دہائی میں خاصی بہتر تھی۔ اس زمانہ کے افراد کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ کراچی کی صفائی کا معیار دنیا کے بہت سے شہروں سے بہتر تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے۔ انھوں نے بلدیہ کراچی کو فعال کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کیے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کے بلدیاتی اداروں کے قانون کے تحت میئر آئے۔ اس زمانہ میں کراچی کے حصہ میں موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ کو نہیں ملتا تھا۔ 1985 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے غیر جماعتی بنیادوں پر فوری اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم اور غوث علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے۔ صوبہ کی منتخب قیادت کو بلدیہ کراچی کی سرکشی پسند نہیں آئی۔ عبدالستار افغانی نے موٹر وہیکل ٹیکس کے لیے تحریک چلائی۔ صوبائی حکومت نے میئر کو رخصت کیا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار میئر منتخب ہوئے۔ ان کے عزائم تو بلند تھے مگر ان کے دور میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔

پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومتیں بنائیں۔ 1973 میں واضح طور پر بلدیاتی اداروں کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت اور بعد میں قائم ہونے والی حکومتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں کراچی میں تاریخی ترقیاتی کام ہوئے مگر باقی ادوار میں کراچی ان کے ایجنڈا پر شامل نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں ڈاکٹر فاروق ستار اپنی میعاد پوری کر کے رخصت ہوئے اور پھر بلدیاتی انتخابات بھی نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں سوشلسٹ نظریات کے حامل فہیم الزماں کو ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا۔ پروفیسر محمد نعمان ان کے مشیر ہوئے۔ فہیم الزماں نے شہر کراچی کی ترقی کے لیے کئی منصوبے بنائے۔ کچھ پر عملدرآمد ہوا مگر پھر اچانک رخصت کر دیے گئے۔ جنرل مشرف کے دور میں نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ناظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں کراچی کے شہریوں کو یہ احساس ہوا کہ سرکاری ادارے صفائی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ نعمت اﷲ خان نے ہر شعبہ میں دوررس اقدامات کیے۔ ایم کیو ایم کے مصطفی کمال میئر بنے۔ ان کے دور میں کراچی جدید دور میں داخل ہوا مگر ان کی پالیسیوں کا فائدہ متوسط طبقہ کو ہوا۔ مصطفی کمال کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کے ہزاروں کارکن بلدیہ میں ملازم ہوئے۔ میئر کو وزیر اعظم کے قریب اختیارات حاصل تھے، اس بناء پر گریڈ 1 سے بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین گریڈ میں بھرتیاں ہوئیں۔ مصطفی کمال پرویز مشرف سے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے گرانٹ حاصل نہ کر سکے۔ ان کے دور میں بلدیہ کراچی خسارے کا شکار ہوئی۔ہزاروں ملازمین کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملیں اور ریٹائر ہونے والے ملازمین پنشن سے محروم ہو گئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں کراچی کے عوام میں احساسِ محرومی انتہائی درجہ تک بڑھ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس کراچی کے عوام کے احساسِ محرومی کو کب استعمال کرے گی۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کراچی بجلی بحران

کسی شے کی طلب و رسد میں عدم توازن اگر بڑھ جائے تو یہ اُس کی قلت کا باعث بنتا ہے۔ طلب بڑھ جائے تو نہ صرف قلت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے بلکہ مہنگائی کا بھی، رسد کا بڑھنا اشیاء کی دستیابی بلکہ ارزانی کا باعث بنتا ہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اشیاء کی قیمت کم ہو یا فراوانی تو وہ ناپید ہو جاتی ہیں، حالیہ دو مثالیں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں تو وہ مارکیٹ سے غائب ہو گئیں اور اب جبکہ بجلی کے سرپلس ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں روشنیوں کا شہر کراچی غیر اعلانیہ بدترین لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہے اور کون نہیں جانتا کہ بجلی میسر نہ ہو تو معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں کراچی میں بجلی کے بحران کی وجوہات جاننے کے لئے وزیراعظم کے معاون خصوصی معدنی وسائل شہزاد قاسم کی زیر نگرانی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا احسن فیصلہ کیا گیا ہے جو فیول سپلائی سمیت دیگر امور کا بھی جائزہ لے گی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے وزارت توانائی کو کے الیکٹرک سے مسلسل رابطے میں رہنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے کہ آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ حالت یہ ہے کہ چند روز قبل کبھی ایندھن کی کمی تو کبھی مرمت کے نام پر شدید گرمی میں تین سے چار مرتبہ ایک ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی گئی اور وہ بھی غیر اعلانیہ کے الیکٹرک نے اپنے اس اقدام کا ملبہ وفاق پر ڈالتے ہوئے فرنس آئل اور گیس کی عدم فراہمی کو متذکرہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا۔ یاد رہے کے الیکٹرک سے اہالیان کراچی ایک عرصہ سے نالاں ہیں۔ بہرحال اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی بھی کوشش کی جا سکتی ہے، وفاقی کابینہ کی تشکیل کردہ کمیٹی کو فوراً متحرک ہو کر حقائق ہی سامنے نہیں لانا ہوں گے بلکہ اس مسئلے کے مستقل بنیادوں پر حل کی بھی موثر و پائیدار کوشش کرنا ہو گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

اب کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں ؟

کراچی کے عوام عرصہ دراز سے بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں اور پریشان کن پہلو یہ ہے کہ غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کی حکمت عملی اگر پہلے ہی وضع کر لی جاتی تو صورتحال اتنی تشویشناک شکل نہ اختیار کرتی بہرحال یہ امر خوش آئند ہے کہ وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں گورنر ہائوس کراچی میں منعقد ہوا۔ جس میں سوئی گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے حکام نے اپنا موقف پیش کیا۔ وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے الیکٹرک کو اسکی مطلوبہ مقدار کے مطابق گیس فراہم کریگی، اب کراچی میں سب کو بجلی ملے گی۔

اجلاس میں کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان گیس کی فراہمی اور واجبات کے معاملات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور مشاورت کے بعد دونوں اداروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کیلئے حکمت عملی بھی وضع کی گئی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیراعظم نے اس اہم مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دی، کیونکہ اس تنازع کے نتیجے میں عوام کو شدید مشکلات درپیش تھیں ۔ کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گیس کی سپلائی میں اضافے کے بعد لوڈشیڈنگ میں کمی آئی ہے تاہم صورتحال اسکے برعکس ہے اب بھی شہر کے بیشتر علاقوں میں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب چوری کی نشاندہی کی جارہی ہے تو جو لوگ بجلی چوری کر رہے ہیں ان کو سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ جبکہ بجلی کی چوری محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلئے حکومت اور کے الیکٹرک کو بجلی کی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سوئی گیس کی فراہمی کے بعد کے الیکٹرک غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرے۔ حکومت اور کے الیکٹرک کو چاہئے کہ اجلاس میں تجویز کئے گئے اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنائے اگر وزیراعظم کے اعلان پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا تو عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔

اداریہ روزنامہ جنگ

کے الیکٹرک کی نااہلی کے نئے ریکارڈ، 15 ،15 گھنٹے کی بدترین لوڈشیڈنگ

کے الیکٹرک اور سوئی سدرن کے تنازع میں کراچی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں 12 سے 15 گھنٹے بجلی کی بندش معمول بن گئی۔ بجلی بندش سے مستثنیٰ علاقے بھی محفوظ نہ رہے، شدید گرمی میں پانی کی بندش نے زندگی مزید مشکل بنا دی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ملیر، اورنگی ٹاون، سعودآباد، کورنگی، لانڈھی، لیاقت آباد، اورنگی ٹاون ، لائینزایریا، ملیر سٹی، رفیع گارڈن، ناظم آباد، پاپوش نگر اور فیڈرل بی ایریا کے علاقے متاثر ہیں۔ شہریوں کی جانب سے فالٹس کے نام پر 14 سے 15 گھنٹے بجلی کی بندش کی شکایات کی جا رہی ہیں۔

شہر میں طویل لوڈشیڈنگ نے شہریوں کیساتھ ساتھ مریضوں کو بھی پریشان کرنا شروع کر دیا ہے۔ سندھ گورنمنٹ ہسپتال سعودآباد ملیر میں 9 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے ڈاکٹرز کو روز درجنوں سرجری ملتوی کرنا پڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب کے الیکٹرک کے خلاف آج دو سیاسی جماعتیں احتجاجی مظاہرہ کرینگی، جماعت اسلامی کے الیکٹرک کیخلاف پریس کلب جبکہ پی ایس پی کی جانب سے کے الیکٹرک ہیڈ آفس کا گھیراو کیا جائے گا۔

کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار کون ہے ؟

Load Shedding in Karachi6

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کے بحران نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی ہے اور اسمبلی کے فلور سے لے کر سڑکوں پر اس کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ کراچی کی سڑکیں شہر کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کے خلاف بینروں سے سجی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا لیکن سید مراد علی شاہ نے گذشتہ روز جماعت اسلامی کی قیادت سے ملاقات کی اور لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیا۔

اس کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں پریس کلب کے باہر احتجاج میں مطالبہ کیا گیا کہ کے الیکٹرک اپنے تمام پاور پلانٹس کو چلائے۔ دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے بھی کے الیکٹرک کے مرکزی دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں شہر بھر سے قافلے شریک ہوئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے درمیان تکرار کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’وفاقی حکومت سوئی سدرن گیس کمپنی کی 73 فیصد مالک ہے جبکہ کے الیکٹرک میں اس کے 24 فیصد شیئرز ہیں لیکن وفاقی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔‘

کے الیکٹرک کے ترجمان علی ہاشمی کا کہنا ہے کہ انھیں 100 ملین کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے اس کی وجہ سے 500 میگاواٹ کی قلت ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا ’کراچی میں بجلی کی موجودہ طلب 2600 سے 2700 میگاواٹ ہے جبکہ پیداوار 2100 سے 2200 میگاواٹ ہو رہی ہے۔‘ کے الیکٹرک کو سوئی سدرن گیس کمپنی 19 ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کرتی ہے جبکہ موجودہ وقت تقریباً 100 کیوبک فٹ گیس فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔ سوئی سدرن گئس کمپنی کے ترجمان شہباز اسلام کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانسمیشن کمپنی ہیں اور گیس کمپنی سے خرید کر کے صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ موجودہ وقت گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، گیس کی طلب زیادہ اور رسد کم ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کے الیکٹرک کو گذشتہ سال کے مقابلے میں 100 ملین کیوبک فٹ فراہمی کم ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک ہم سے جو گیس طلب کرتی ہے اس کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہے، سنہ 1970 میں جو معاہدے ہوا وہ صرف 10 ملین کیوبک فٹ کا تھا۔ اس کے باوجود بھی ہم انھیں 80 ملین کیوبک فٹ اضافی دے رہے ہیں اگر کے الیکٹرک ہم سے معاہدہ کر لیتی ہے تو ہم اسے مزید گیس فراہم کر سکتے ہیں۔ ‘
کے الیکٹرک کی سنہ 2005 میں نجکاری کی گئی تھی۔ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے کوشش کر رہے ہیں کہ کے الیکٹرک سے معاہدہ ہو جائے لیکن یہ کیوں نہیں ہو سکا یہ سوئی سدرن گیس کمپنی بتا سکتی ہے۔

بقایاجات کا تنازع

کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس میں ایک دیرینہ تنازع بقایاجات کا بھی ہے۔ گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے حساب سے 80 ارب روپے بقایاجات بنتے ہیں جبکہ کے الیکٹرک کہتی ہے کہ 13.5 ارب روپے ہیں اور یہ کوئی چھوٹا فرق تو نہیں۔ انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان وزیر اعلیٰ ہاؤس میں یہ طے ہوا تھا کہ کسی تیسرے فریق سے آڈٹ کروایا جائے گا جو 21 روز میں طے کر کے بتائے گا کہ کتنے پیسے بنتے ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے ٹرم آف ریفرنس بنا کر دے دیے لیکن کے الیکٹرک کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہے۔‘

کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بقایاجات کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے جس کی وجہ سے اس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی ہے۔ نینشل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری اتھارٹی نیپرا کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک 2200 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہی ہے جس میں 1100 میگاواٹ اس کی اپنی پیداوار ہے، 650 میگاواٹ قومی گرڈ سے لی جاتی ہے جبکہ باقی نجی پاور پروڈیوسرز سے حاصل کی جاتی ہے ۔  کے الیکٹرک کے پاس موجودہ پلانٹ قدرتی گیس کے علاوہ ایل این جی، فرنس آئل اور ہائی سپیڈ ڈیزل سے بھی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ کے الیکٹراک نے ان ذرائع کو استعمال کر کے بجلی پیدا نہیں کی۔

نیپرا کے سابق رکن فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے پاس اس بنیاد پر لوڈشیڈنگ کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اس کو گیس نہیں مل رہی، کیونکہ گیس کمپنی کی اپنی ترجیحات ہیں۔ سوئی سدرن گیس انھیں اس وجہ سے گیس فراہمی نہیں کر رہی ہے کیونکہ وہ اچھے صارف نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع سے اس کمی کو پوری کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یعنی وہ ہائی سپیڈ ڈیزل یا فرنس آئل سے بجلی پیدا کر سکتی ہے، اگر اس کی لاگت زیادہ آتی ہے تو نیپرا ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں اس کو دے دیتا ہے کیونکہ ہر مہینے فیول ایڈجسمنٹ ہوتی ہے اگر آپ مہنگا ایندھن استعمال کریں گے تو وہ ٹیرف میں مل جائے گا۔‘ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ڈیزل کا ٹیرف ابھی تک متعین نہیں ہوا ہے، نرخ طے ہونے کے بعد پلانٹ کو کمیشن کیا جاتا ہے جس میں پانچ سے چھ ماہ لگتے ہیں جبکہ جو حالیہ ٹیرف ہے اس پر بھی عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے۔ اگر حکومت ٹیرف متعین کر دے تو انھیں کام کرنے میں آسانی ہو گی۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

’کراچی میں بجلی کے بحران کا ذمہ دار کے-الیکٹرک‘

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کراچی میں جاری بجلی کے بحران کا ذمہ دار شہر میں بجلی کی تقسم کار کمپنی کے-الیکٹرک کو قرار دے دیا جبکہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے گیس کا کوٹہ بڑھایا جائے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیپرا کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے تین روزہ دورے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی گئی جس کا جائزہ لینے کے بعد ریگولیٹر نے فیصلہ کیا کہ بجلی کی مکمل صلاحیت کے بغیر اس کی پیداوار سمیت تقسیم کار کمپنی کے خلاف بجلی کی افادیت میں متعدد ذمہ داریوں کی خلاف ورزیوں پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔

تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ شہر میں لوڈ منیجمنٹ کے حوالے سے کے-الیکٹرک کے دعوے حقائق کے برعکس ہیں، جبکہ ادارے کی جانب سے شہر میں اضافی لوڈشیڈنگ کو گیس کی فراہمی میں کمی سے جوڑنا بھی غلط ہے۔ نیپرا رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کے-الیکٹرک کے تقسیم کار نظام میں خرابی کی وجہ سے بھی شہر میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ دوسری جانب نیپرا رپورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ کے-الیکٹرک کو سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کی جانب سے موصول ہونے والی گیس سپلائی بہت کم ہے، لہٰذا کے-الیکٹرک کے شیئرز کے 24 فیصد مالک ہونے کے ناطے حکومت گیس کی سپلائی کو بڑھاتے ہوئے 190 کیوبک فیٹ پر ڈے (ایم ایم سی ایف ڈی) تک پہنچائے کیونکہ کراچی میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اسے 50 سے 60 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سپلائی کی جا رہی ہے۔

نیپرا کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ’ادارے نے مندرجہ بالا تمام خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ کے-الیکٹرک کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ نیپرا کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایت کے جواب میں کے-الیکٹرک کی ترجمان سعدیہ ڈاڈا کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ نیپرا کی مکمل رپورٹ کا انتظار کر رہا ہے جبکہ 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سپلائی کے احکامات ایک مثبت اقدام ہے جس کے بعد کے-الیکٹرک شہر میں بجلی کی سپلائی کو معمول پر لانے کی اہل ہو جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک کی رپورٹ کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) پر بجلی کے نرخ متعین نہیں کیے گئے ہیں جبکہ گیس سے چلنے والے پلانٹس کے لیے متبادل ایندھن کا بھی اختیار نہیں دیا گیا، لہٰذا موجودہ صورتحال میں کے-الیکٹرک کے پاس متبادل ایندھن استعمال کرنے کا آپشن موجود نہیں۔ ادھر نیپرا کا کہنا تھا کہ اس کی 5 رکنی کمیٹی نے 11 اپریل سے 13 اپریل تک کے-الیکٹرک کا دورہ کیا اور گیس کی کمی کی وجہ سے شہر میں ہونے والی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے تحقیقات کیں۔

 کمیٹی نے کے-الیکٹرک حکام سے تفصیلی بات چیت کی اور ادارے کے اہم بجلی پیداوری پلانٹس کی جانچ پڑتال کی، علاوہ ازیں ایسے علاقوں کا دورہ بھی کیا جہاں اضافی لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور وہاں سے عام لوگوں کا ردِ عمل بھی سنا جس کے بعد انہوں نے حکومت کو ایک ایڈوائزری بھی ارسال کی۔ نیپرا نے اپنی رپورٹ کے بعد کے-الیکٹرک کو ایس ایس جی سی کی جانب سے دی جانے والی گیس میں کمی کی وجہ سے ہدایت جاری کی تھی کہ وہ کورنگی کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹ (کے سی سی پی پی) اور بن قاسم پاور اسٹیشن (بی کیو پی ایس) ٹو کو فعال کرے۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

کےالیکٹرک، سوئی سدرن معاملات طے نہ ہو سکے، عوام پریشان

کراچی الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کے درمیان معاملات تاحال طے نہیں پا سکے، دونوں اداروں کی جنگ میں عوام کو لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 3 سے 9 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے ، جس کے باعث شہریوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں، لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ علاقوں میں بھی بجلی کی بندش کا سلسلہ جاری ہے۔ ترجمان کے الیکٹرک کے مطابق اضافی گیس ملتے ہی جنریشن میں مزید 500 میگاواٹ شامل ہو گی اور شہر میں بجلی کی فراہمی معمول پر آجائے گی۔ دوسری جانب سوئی سدرن حکام کی جانب سے دوسرا مؤقف سامنے آیا ہے کہ کے الیکٹرک نے گیس بل تنازع کے حل کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس میں کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا۔ سوئی سدرن حکام کا مزید کہنا ہے کہ کے الیکٹرک اربوں روپے گیس بل کے لیے غیر جانبدار اکاونٹنٹ کا انتخاب کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

نیپرا کا کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی تحقیقات کا اعلان

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے کراچی میں بجلی فراہم کرنے کے ذمہ دار ادارے کے-الیکٹرک کی جانب سے شہر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا نوٹس لے لیا۔ نیپرا نے شدید گرمی میں بجلی کی عدم دستیابی کے ستائے شہریوں کی سُن لی اور گھنٹوں کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ نیپرا کی جانب سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ نیپرا نے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کےالیکٹرک کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی 11 سے 13 اپریل تک کراچی کا دورہ کرے گی اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی عوامی شکایات کا جائزہ لے گی۔ واضح رہے کہ شہر میں درجہ حرارت بڑھتے ہی مختلف علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے، دن اور رات کے اوقات میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بجلی کی بندش نے شہریوں کو دہرے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔

کراچی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ

لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے تمام وعدوں اور دعوؤں کے باوجود موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں ایک بار پھر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران صرف کراچی میں طویل لوڈشیڈنگ کے باعث ملکی اقتصادیات کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ میٹرک کے بیشترامتحانی مراکز بھی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ نہیں۔ بجلی کے اس سنگین بحران پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے نوٹس لیتے ہوئے کے الیکٹرک سے وضاحت طلب کرنے کے علاوہ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

جبکہ سندھ اسمبلی میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کے الیکٹرک کے خلاف قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود بحران میں ہنوز کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ شہر قائد ملکی اقتصادی و تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں صنعتی پہیے کی روانی میں آنے والی رکاوٹ کے اثرات پوری قومی معیشت پر پڑتے ہیں۔ تیرہ سے چودہ گھنٹے کی غیر اعلانیہ بجلی کی بندش سے معاشی و تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں ۔ شہر کی تاجر تنظیموں کی جانب سے جاری بحران کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے انتظامیہ سے 72 گھنٹے میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ بصورت دیگر بلوں کی ادائیگی بند اور علامتی بھوک ہڑتال کی جائے گی۔

دوسری طرف کے الیکٹرک نے بجلی کی بندش کے دورانیے میں اچانک اضافے کا اہم سبب سوئی سدرن کی جانب سے گیس کی کم فراہمی کو قرار دیا ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے ۔ ایسی صورت میں جب صارفین سے مختلف سرچارج کی مد میں مہنگے بل وصول کئے جا رہے ہوں ، کے ای کی طرف سے فرنس آئل کا استعمال نہ کرتے ہوئے صرف گیس پر انحصار کرنا نا قابل فہم ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ نیپرا کی جانب سے بجلی بحران کا نوٹس لینے اور اس ضمن میں صورتحال کے بغور جائزے کیلئے کمیٹی قائم کر نے سے کراچی کے شہریوں کو طویل لوڈشیڈنگ کی اذیت سے نجات ملنے کی کوئی راہ ہموار ہو سکے گی جو صنعت کاپہیہ رواں رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

کراچی میں بجلی کا بحران برقرار

عدالتی اور حکومتی احکامات کے برعکس کے الیکٹرک کی جانب سے شہرمیں بجلی کی طویل اورغیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں پانی کا بحران بھی پیدا ہو گیا ہے اور لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے کراچی میں کئی روزسے فنی خرابیوں اور ہائی ایکسٹینشن لائنیں ٹرپ کرنے کا بہانہ بنا کر طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ مزید بڑھا دیا ہے، حکومتی اعلان کے باوجود کے الیکٹرک رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے موقع پر بھی لوڈ شیڈنگ سے گریزنہیں کر رہی، شہر کے کئی علاقوں میں لاکھوں لوگوں نے آج چوتھی سحری بھی بجلی کے بغیر ہی کی۔

بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے کئی علاقوں میں پانی کا بھی بحران پیدا کر دیا ہے، رمضان المبارک میں دوہری تکلیف پر لوگ سراپا احتجاج ہیں اور کئی علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ گلبہار نمبرایک میں لوگوں نے بجلی اور پانی نہ ہونے پر لسبیلہ سے ناظم آباد جانے والی سڑک کو بلاک جبکہ شہر کی سب سے بڑی سینیٹری مارکیٹ کو بند کرا دیا ۔

دوسری جانب کے الیکٹرک کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کے لیے ادارے کا عملہ ہم لمحہ مصروف ہے۔ شہر میں کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی، کسی بھی علاقے میں بجلی کی عدم فراہمی پر شہری 118 پر رابطہ کرکے اپنی شکایات درج کرا سکتے ہیں۔