کراچی کا اصل ماسٹر پلان کیا ہے ؟

دنیا کی تمام ہی ریاستیں اپنے معاشی حب کی بہترین دیکھ بھال کرتی ہیں اور اپنے ملک کو استحکام بخشنے والے شہر کے لیے خصوصی ماسٹر پلان تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ اس کی شناخت دیگر علاقوں سے ممیز ہو سکے۔ لیکن پاکستان میں ویژن کے فقدان اور دور اندیشانہ سوچ سے بے بہرہ کرتا دھرتاؤں کی بے عملی کا شاخسانہ کراچی کے شہری بدترین گورننس کی صورت بھگت رہے ہیں۔ ایک وقت میں پاکستان کے دارالحکومت کا درجہ رکھنے والا شہر آج صوبہ کا دارالخلافہ ہونے کے باوجود دنیا کے بدترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، عروس البلاد کا لقب پانے والا شہر قائد جسے 60ء کی دہائی میں ایشیا کا خوبصورت ترین شہر ہونے کا درجہ حاصل تھا، جہاں کی سڑکیں روز پانی سے دھوئی جاتی تھیں، آج بدحالی کا منظرنامہ پیش کر رہا ہے، آخر شہر کو چلانے والے اداروں کا اصل ماسٹر پلان کیا ہے؟ کیونکہ شہر میں شروع کیے جانے والے تعمیراتی منصوبے بھی تخریب کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔

گزشتہ روز کراچی میں نالے پر مارکیٹیں قائم کرنے سے متعلق نالے کی صفائی اور حدود کے تعین سے متعلق بلدیہ عظمیٰ کی درخواست سماعت میں سپریم کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی کا اصل ماسٹر پلان طلب کیا ہے۔ معزز عدالت نے آبزرویشن دیتے ہوئے بالکل صائب کہا کہ شہریوں کے سانس لینے کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی، کراچی کو کیا اب شہر کہلانے کے لائق چھوڑا ہے؟ اور دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ شہری سہولیات اب کراچی میں عنقا ہیں۔ کراچی کو صرف صفائی ستھرائی کے معاملات میں ہی بدنظمی کا سامنا نہیں بلکہ تجاوزات، انفرااسٹرکچر کی خستہ حالی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سمیت کئی گنجلک مسائل بھی درپیش ہیں جن سے پیچھا چھڑانا بلدیاتی و صوبائی اداروں کے بس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔

عدالت نے بالکل صحیح ریمارکس دیے کہ شہر کو تباہ کر دیا گیا، نالے بند پڑے ہیں، اب نالوں پر تجاوزات قائم کر کے شہر کو مکمل ڈبونے کا پلان کر رہے ہیں، ذرا سی بارش سے شہر کو ڈبو دیا مگر سیکھا نہیں، سرکاری اداروں کا کام نالوں پر دکانیں بناؤ مال کماؤ رہ گیا ہے، شہر کو اب اداروں کے حوالے نہیں کر سکتے، شارع فیصل سمیت کوئی سڑک سفر کرنے کے قابل نہیں، شہر کے گٹر اب بھی بھرے ہوئے ہیں، ہر روڈ پر مٹی، گندگی اور گرد ہے۔ کراچی کا نوحہ شہر کی ہر شاہراہ ہر گلی پیش کر رہی ہے، بڑی شاہراہوں کا یہ حال ہے کہ تعمیراتی کام شروع کر دیے جاتے ہیں لیکن اختتام ہوتا نظر نہیں آتا۔ شہر میں پانی کی فراہمی کا معاملہ بھی چیستان بنا ہوا ہے، وہ شہر جہاں انگریزوں کے دور کے ڈملوٹی کنوؤں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا، وہ عظیم منصوبہ تو کب کا غائب ہو چکا، پانی کے کئی بڑے منصوبے بنانے کے باوجود بھی شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور دوسری جانب ان ہی علاقوں میں موجود ہائیڈرنٹس پر نہ صرف پانی دستیاب ہے بلکہ ٹینکروں کے ذریعے شہریوں کو قیمتاً فروخت کیا جا رہا ہے۔

شہری متعلقہ اداروں سے اس پہیلی کا جواب طلب کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ پانی جو رہائشیوں کو دستیاب نہیں وہ ٹینکر مافیا کو کیسے اور کہاں سے مل جاتا ہے؟ کیا متعلقہ اداروں نے اپنی آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ رکھی ہے جو ٹینکر مافیا کا سدباب نہیں کیا جا رہا۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ کراچی کی تباہی کے ذمے دار آمرانہ دور سے زیادہ جمہوری ادارے ہی رہے ہیں، مفادات اور خودغرضانہ سیاست نے اس شہر کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔ شہر کو بنانے کی ذمے داری صرف صوبائی و شہری حکومت کی ہی نہیں بلکہ شہر کی اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جس میں ہر کوئی ناکام دکھائی دیتا ہے۔ ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے شہر میں جہاں آمدورفت کے لیے شاہراہوں اور ٹرانسپورٹیشن کا بہترین ہونا لازم ہے وہاں ٹرانسپورٹ کا شعبہ سب سے زیادہ بدحال دکھائی دیتا ہے۔

شہریوں کو ضرورت کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں، شہر کی سڑکوں پر ان فٹ گاڑیاں رواں دواں ہیں، اور متعلقہ ادارے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں 120، 200 گز کے مکانات کو توڑ کر کئی کئی منزلہ کمرشل عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں، اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا ادارہ خاموش ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ علاقہ جس کی پلاننگ چند سو نفوس کی رہائش کے لحاظ سے کی گئی ہو، جب وہاں ایک ہی پلاٹ پر سیکڑوں افراد رہائش پذیر ہوں گے تو مکمل علاقے میں بلدیاتی سہولیات کی کیا صورتحال ہو گی؟ یہ کوئی ایسا لاینحل مسئلہ نہیں جس پر ارباب اقتدار نہ سوچ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے باقاعدہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے، شہریوں کے دیرینہ مسائل کے ساتھ ٹرانسپورٹ، انفرا اسٹرکچر کی بحالی کا کام فول پروف مکمل کیا جائے۔ کراچی کی تعمیر نو میں صرف بلدیاتی و صوبائی حکومتیں ہی نہیں تمام متعلقہ ادارے اور سیاسی جماعتیں ایک ہو کر کام کریں، تب ہی اس شہر کو اس کی حقیقی پہچان واپس دلائی جا سکتی ہے۔

اداریہ ایکسپریس نیوز

اب کراچی وہ نہیں رہا

شہر لوگوں سے ہوتا ہے اور شہر لوگوں میں یوں رچ بس جاتا ہے کہ شہر چھوٹ بھی جائے تو یادوں میں زندہ رہتا ہے۔ میں برطانیہ میں رہتا ہوں اور کبھی پاکستان میں مقیم دوستوں سے بات ہوتی ہے تو ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے، ’اب کراچی وہ نہیں رہا‘۔ ویسے یہ جملہ ایک عمر کے بعد کراچی کیا ہر چیز پر فٹ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کراچی کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یقیناً صورتحال سنگین ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک تقریب ’ری وائیونگ کراچی ڈنر‘ میں سابق کرکٹر شاہد آفریدی کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ شاہد آفریدی کراچی کے رہنے والے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں۔ اِس تقریب میں شاہد کراچی کے بارے میں کراچی ہی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ جماعتوں کے بڑے لیڈران کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

شاہد آفریدی کی آواز میں ایک مایوسی تھی ایک کرب تھا، لگ رہا تھا کہ حالیہ بارشوں میں آنے والی بڑی عید انھوں نے کراچی میں گزاری ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہہ دیں کہ کیا ’نظر نہیں آرہا باہر کچرے کا انبار لگا ہے، اٹھو بھائیو! یہ اچھے اچھے سوٹ پہن کر فائیو سٹار ہوٹلوں میں ڈنر کرنے کا وقت نہیں ہے، کام کرنے کا وقت ہے، اِس شہر کو بچانے کا وقت ہے۔‘ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے الفاظ ناپ تول کر استعمال کر رہے ہیں،اپنا غصہ چھپا رہے ہیں۔ شاہد خان آفریدی کو 20 سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے اور ریٹائر ہونے کے فوراً بعد آخر کار اپنے جذبات پر قابو رکھنا آگیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وقت ملنے پر شاہد آفریدی نے عوام کے مسائل کی نشاندہی کی اور ا ن کی باتوں سے یقیناً ہر کراچی میں رہنے والا متفق ہو گا۔

کراچی دفتر کے اس کلرک کی طرح ہے جو سب کے کام کرتا ہے اس کا کام کوئی نہیں کرتا۔ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ کلرک کے انتہائی ضروری کاموں کی فائل ایک میز سے دوسری میز پر منتقل ہوتی رہتی ہے۔ سب ایک دوسرے پر ذمہ داری تھوپنے کے لیے تیار رہتے ہیں کام کوئی نہیں کرتا۔ ہزاروں نئے لوگ ہر مہینے اِس شہر میں آتے ہیں اور اِس میں گم ہو جاتے ہیں۔ بڑا انسان دوست شہر ہے۔ آپ ملک کے کسی شہر سے بھی کراچی پہنچیں آپ کو اپنے مزاج اور زبان کے لوگ مل جائیں گے۔ انگریزی میں میلٹنگ پوٹ اسی کو کہتے ہیں۔ مگر اب اِس پوٹ کو دھونے کی ضرورت ہے، مانجھنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کا بجٹ کراچی پر لگانے کی ضرورت ہے۔

ابھی حال ہی میں میرے ایک دوست نے کراچی کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے بتایا کہ کراچی اب خوب ترقی کر رہا ہے۔ نئے نئے شاپنگ مال بن رہے ہیں، بین الاقوامی برانڈز کراچی میں موجود ہیں، نئے اور جدید ریسٹورانٹ اور برگر پوائنٹس کھل رہے ہیں۔ چند ایک برگروں کو انھوں نے ایسے بیان کیا کہ میرے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کے خود کے پسینے چھوٹ گئے۔ 4 جی کی انٹرنیٹ رفتار کے بارے میں بتایا اور یہ بتایا کہ وہ کیسے فلمیں آسانی سے 250 روپے میں ریلیز ہونے سے دو دن پہلے دیکھ لیتے ہیں۔

دوستوں کے ساتھ رات گئے تک نئے انداز کے جدید ڈھابوں پر بیٹھ کر گپیں ہانک سکتے ہیں اور گرم گرم پراٹھوں کے مزے اڑا سکتے ہیں، میں نے سوچا بھائی کی توجہ تعلیمی نظام، سیوریج کے نظام، پانی اور بجلی کے مسائل، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری پر بھی دلوائی جائے مگر پھر سوچا چھوڑو انہیں ان مسائل کے بارے میں مجھ سے بہتر پتہ ہو گا۔ وہ شاید فی الحال غافل رہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ مسائل ان کے شہر کا یوں حصہ بن گئے ہیں کہ اب یہ مسائل، مسائل نہیں رہے زندگی بن گئے ہیں۔

حیدر جناح
لندن

رہائش کیلئے ’کراچی‘ دنیا کے بدترین شہروں میں شامل

دی اکنامسٹ گروپ کے ریسرچ اینڈ انالائسز ڈویژن ’اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو)‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کراچی کو ’رہائش‘ کے حوالے سے دنیا کے بدترین شہروں میں شامل کر دیا۔ سکونت اختیار کرنے سے متعلق دنیا کے 140 بدترین شہروں کی فہرست میں ’کراچی‘ کا نمبر 134 ہے، یعنی پورٹ موریسبی، ڈھاکہ، تریپولی، لاؤس اور دمشق کے مقابلے میں کراچی کو بہتر بتایا گیا ہے۔ شہروں کی درجہ بندی استحکام، صحت کی سہولیات، ثقافت و ماحول، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں نوعیتی اور کمیتی عوامل کی بنیادوں پر کی گئی۔

درجہ بندی کے لیے کیے جانے والے سروے میں صرف ان شہروں اور بزنس سینٹرز کو شامل کیا گیا تھا جہاں لوگ سکونت اختیار کرنا یا دورہ کرنا چاہیں، لہٰذا اس میں کابل اور بغداد کو شامل نہیں کیا گیا تھا جہاں جنگ جاری ہے۔ تاہم ماضی قریب میں نسبتاً غیر مستحکم رہنے والے شہروں جیسا کہ ’دمشق‘ کو سروے میں شامل کیا گیا۔ آسٹریلیا کا شہر میلبورن ’قابل سکونت‘ شہروں میں مسلسل ساتویں بار پہلے نمبر پر رہا، جبکہ آسٹریلیا کے دیگر دو اور کینیڈا کے تین شہر اس فہرست کے پہلے 10 شہروں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ دوسری جانب کراچی مسلسل تیسری بار رہائش کے لیے دنیا کے بدترین شہروں میں شامل رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حیران کن طور پر کراچی میں ان پانچ شعبوں میں سے کسی میں 2015 سے کوئی بہتری نہ بدتری آئی۔

کراچی کا 99 فیصد پانی مضر صحت : کے ایم سی رپورٹ

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کی فوڈ لیبارٹری کا کہنا ہے کہ شہر کو فراہم کیا جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے۔ میئر کراچی کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کے ایم سی فوڈ لیباٹری نے بتایا کہ انہوں نے شہر بھر سے پانی کے 204 نمونے جمع کیے جنہیں لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا اور حیران کن طور پر ان نمونوں میں سے 202 نمونے پینے کے لیے مضر قرار دیے گئے۔ کے ایم سی فوڈ لیبارٹری کی رپورٹ دیکھنے کے بعد وسیم اختر نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کو پانی کی فراہمی کے نظام کو بہتر کرنے اور انسانی زندگی کو درپیش ممکنہ خطرے کا سدِ باب کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

کے ایم سی ترجمان نے اس حوالے سے بتایا کہ کراچی کی 24 یونین کمیٹیوں سے پانی کے نمونے جمع کیے گئے، جنہیں فوڈ لیبارٹری میں معیاری طریقہ کار کے تحت ٹیسٹ کیا گیا۔ حکام نے بتایا کہ میئر کراچی کی ہدایت پر پاکستان پیور فوڈز آرڈیننس 1960 کے تحت پانی کے نمونے کا ٹیسٹ کیا گیا۔ فوڈ لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق 85 نمونوں کو کلورین کی موجودگی جاننے کے لیے ٹیسٹ کیا گیا جن میں سے صرف 2 ہی نمونے ایسے تھے جن میں کلورین شامل تھا۔ اس کے علاوہ 119 نمونوں میں بیکٹیریا کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کیا گیا اور تمام ہی نمونوں میں ’ای کولی‘ نامی بیکٹیریا کی تشخیص ہوئی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ پانی میں پائے جانے والے اس ای کولی بیکٹیریا سے مہلک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ جن علاقوں سے پانی کے نمونے لیے گئے ان میں سخی حسن، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، فیڈرل بی ایریا، عامل کالونی، بلدیہ ٹاؤن، گلشن غازی، اختر کالونی، محمود آباد، منظور کالونی، اعظم بستی، اورنگی ٹاؤن، گلشن اقبال، میٹروویل، عثمان آباد اور کورنگی کے علاقوں کے علاوہ بہادر آباد میں عالمگیر مسجد بھی شامل ہے۔

حسن منصور

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مسائل

پاکستان کا پہلا دارالحکومت اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی قائد اعظم محمد علی جناح کا مولد و مسکن، رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بندرگاہ اور ملک کا صنعتی و تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں روزگار کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا میڈیا سینٹر، سب سے بڑا تعلیمی مرکز اور سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والا شہر ہے۔شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔ مختلف وفاقی، صوبائی اور ضلعی ٹیکسز کی صورت میں کراچی ملک اور صوبے کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے۔ انتہائی دکھ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ کراچی کے لیے وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی طرف سے منظم اور سنجیدہ کوششوں اور مالیاتی وسائل کی بوجوہ بہت کمی رہی ہے۔

کراچی کے بڑے بڑے مسائل میں پانی کی فراہمی، سیوریج نظام، پبلک ٹرانسپورٹ، سڑکوں اور پلوں کی ابتر صورت، برساتی پانی کی بروقت نکاسی نہ ہونا، ٹریفک مینجمنٹ، پبلک ہیلتھ کا ناقص نظام، پرائمری اور سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری تعلیم کی سرکاری سطح پر فراہمی میں حکومتوں کی عدم دلچسپی، کچی آبادیوں کا پھیلاؤ، جرائم میں روز بہ روز اضافہ، اسپورٹس اور تفریحی سہولیات کی عدم فراہمی، سرکاری زمینوں اور نجی املاک پر قبضے حتیٰ کہ ندی نالوں اور دیگر آبی گزر گاہوں میں مکانات کی تعمیر، کھیل کے میدانوں، پبلک پارکس اور دیگر ایمینیٹی پلاٹس پر قبضہ مافیا کا راج اور دیگر کئی مسائل شامل ہیں۔ ان میں سے کئی مسائل کے حل کے لیے لمبی چوڑی منصوبہ بندی یا بھاری فنڈز کی بھی ضرورت نہیں بلکہ یہ مسائل محض چند انتظامی اقدامات سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

کراچی کو آج کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ رینجرز کی جدوجہد کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال خاصی بہتر ہے تاہم اسٹریٹ کرائمز کی وجہ سے شہری اب بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر اور دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ خصوصاً ماس ٹرانزسٹ منصوبے التوا میں پڑے ہیں۔ ماڑی پور تا سہراب گوٹھ، لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کا افتتاح محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہوا تھا لیکن یہ تاحال تعمیر کا منتظر ہے۔ متروکہ سرکلر ریلوے کو اب دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے شہری اللہ سے دعا کر رہے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن تا ٹاور کراچی گرین لائن بس پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے K-4 منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایک کے بعد دوسری تاریخیں دی جا رہی ہیں۔ سیوریج کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کراچی کا ایک مسئلہ رہائشی مکانات کی فلیٹس یا اپارٹمنٹس میں تبدیلی بھی ہے۔

120،200 یا 400 گز کے جس ایک یا دومنزلہ مکان میں دو خاندان رہائش پذیر تھے، شہری ادارے ان پلاٹس پر کئی منزلہ فلیٹس یا اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے اجازت نامے جاری کر رہے ہیں۔ یوں آٹھ دس افراد کی رہائش والی جگہ پر اب پچاس ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ افراد رہائش اختیار کر رہے ہیں۔ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں میں بھرپور سیاسی عزم اور اسٹیبلشمنٹ میں پروفیشنل اہلیت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور کراچی کی نمایندگی رکھنے والی یا نمایندگی کی منتظر جماعتوں کو مل کر کراچی کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار مخلصانہ طور پر ادا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو کراچی کی بھلائی کے لیے باہمی تعاون کے جذبے سے مل کر کام کرنا چاہیے۔

اداریہ ایکسپریس نیوز