صدر پاکستان کے نام کراچی والوں کا پیغام

صدر صاحب کراچی والوں نے آپ کو کامیاب کرایا صرف اس لئے کہ آپ نے کراچی کی سڑکوں پررکشے میں گھوم گھوم کر کراچی والوں سے بہت وعدے کئے تھے کہ ہم آئیں گے توکراچی کو پیرس بنا دیں گے مگر آپ نے ابھی تک کراچی والوں سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا بلکہ آپ کے دور میں کوٹے کو بھی موخر کر دیا گیا اور وزیر اعظم صاحب نے کراچی والوں کے لئے 1100 ارب کاجو وعدہ کیا تھا وہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوا، کراچی کے لڑکوں پر اب تک نوکریاں بند ہیں، یہاں تک کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بھی جو نوکریاں نکلی ہیں اس میں لکھا ہے کہ کراچی کے ڈومیسائل والے اپلائی نہ کریں آپ بتائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کے ڈی اے کا نام تبدیل کر کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کر دیا گیا ہے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کو بھی ہتھیا لیا گیا اور بلدیاتی انتخابات بھی نہیں کرائے جا رہے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی کو ایک کروڑ دکھایا گیا ہے، جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ تو نادرا کے کارڈ جاری ہو چکے ہیں۔ 

ظلم کی انتہا تو دیکھئے ہر طرف بیروز گاری پھیلائی جا رہی ہے۔ کورونا کی آڑ میں تمام اسکولز بند ہیں، شادی ہال بند ہیں اور جلسے جلوس جاری ہیں۔ اب زبردستی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ کراچی کے اس سے پہلے صدر ممنون حسین کو بھی میں نے یہی خط لکھا تھا کہ آپ کم از کم کراچی کی تکالیف دور کریں، انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ ستم ظریفی تو دیکھئے دیگر صوبوں اور مرکز میں نیلی پیلی ٹرینیں، بسیں، پل، سڑکیں، ہائی ویز اسی کراچی کے پیسوں سے بن چکی ہیں مگر کراچی کو ایک بس بھی میسر نہیں۔ سارا بجٹ سندھ حکومت ہضم کر جاتی ہے اور مرکز سے امداد کی توقع کرتی ہے۔ جناب صدر 5 سال میں سے آپ کو 3 سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کراچی والے آپ کو دوبارہ ووٹ دیں تو آپ کو کراچی کی خدمت کرنی ہو گی جوان کا حق بنتا ہے۔ آپ کو اتنی زیادہ سیٹیں تو ایک صوبے سے بھی نہیں ملیں جتنی ایک شہر نے آپ کو دے دیں۔ انصاف سے کام لیں، سندھ اور کراچی کو برباد ہونے سے بچائیں۔ 

بچپن میں ہم نے پڑھا تھا کہ ایک بادشاہ سلامت نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنی تو صبح وزیروں سے پوچھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کر رہے تھے۔ کیا وجہ ہے؟ اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہو گئی ہو گی اس لیے فریاد کر رہے ہیں تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوا دیا اور کچھ رشتہ داروں اورکچھ دوستوں میں تقسیم کیا۔ اگلی رات کو پھر وہی آوازیں آئیں تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا ؟ وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔ اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں۔ وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کر رہے ہیں تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے۔ صبح پھر موجیں لگ گئیں وزیر کی۔حسب عادت کچھ بسترگھر بھیج دیے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کئے۔ جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیا، وزیر نے کہا کہ جناب وہ سب کچھ ہو گیا ہے، بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں؟ وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئن کرنا ہی تھا اور اوکے کی رپورٹ بھی دینی تھی۔ وہ باہر گیا کہ پتہ کر کے آتا ہوں۔ جب واپس آیا تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کر رہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور روزانہ کرتے رہیں گے۔ بادشاہ یہ سن کے خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا۔ یہی حال ہمارے وزیراعظم صاحب کا بھی ہے۔ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ مگر یہاں رپورٹ سب اوکے کی دی جارہی ہے اور بادشاہ سلامت خوش ہیں کہ آ ئندہ 5 سال کی خوشخبریاں پیشِ خدمت کی جارہی ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے پاکستان میڈ یا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل لانے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سب سے مضحکہ خیز لمحہ وہ تھا جب صدر مملکت نے صحافیوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے پریس گیلری کی جانب نگاہ اٹھائی تو وہ خالی تھی۔ انہوں نے بھنویں اچکائیں اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ہاتھ گھما دیا۔ یہ پارلیمنٹ کی تاریخ کا پہلا اجلاس تھا جس میں صحافیوں کو مدعو نہیں کیا گیا اور انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا۔ پریس گیلری کو تالا لگا دیا گیا۔ صدر صاحب تو شاید اس سے بھی آگاہ نہیں ہوں گے کہ پارلیمنٹ کے باہر مشترکہ احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس لئے انہوں نےاحتجاج کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے 3 برسوں کی مثبت تبدیلیوں کا ذکر کیا۔عمران حکومت اب پی ایم ڈی اے کے ذریعے پاکستان کی صحافت کے حوالے سے سیا ہ ترین باب رقم کرنا چاہ رہی ہے۔ اس کالے قانون کے ذریعے وہ آزادی اظہار سلب کر نا چاہتی ہے۔ کیا یہ وہی عمران صاحب ہیں جو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، مغربی ممالک میں اپنی زندگی گزار کر آئے ہیں، جو پاکستان میں اداروں کی مضبوطی اور استحکام کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے۔ عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے صحافیوں نے اس تبدیلی کا کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ یہ وہی صحافی ہیں، جنہوں نے چینلز پر بیٹھ کر باقاعدہ اس پارٹی کیلئے مہم چلائی تھی۔ لوگوں کو میڈیا کے ذریعے تبدیلی کے سہانے خواب دکھایا کرتے تھے حالانکہ بطور صحافی توآپ کو غیر جانبداری اختیار کرنی چاہئے تھی۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

Leave a comment