قبرستانوں کی داستان

روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے زیر نگرانی 39 قبرستان ہیں جن میں سے 6 کو تدفین کے لیے بند کر دیا گیا ہے جب کہ فلاحی اداروں کے تعاون سے دو نئے قبرستانوں کی تعمیر کر کے تدفین کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔ بلدیہ کے ڈائریکٹر انفارمیشن اورکنوینر قبرستان کمیٹی کے مطابق کراچی کے قبرستانوں میں مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی خرید و فروخت اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری تھیں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ قبرستان محفوظ پناہ گاہیں بن چکی تھیں۔ ایک مضبوط مافیا پورے نیٹ ورک کے پیچھے کام کر رہا تھا۔ ان تمام مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ نے موثر اقدام کیے تھے۔ قبرستان میں گورکنوں سمیت تمام عملے کو رجسٹرڈ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ بچیوں کی آمد و رفت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ قبروں پر پانی ڈالنے والوں کے لیے 18 سال سے زائد عمر کی شرط لگائی گئی۔

بلدیہ حکام نے ایک سینٹرل کمیٹی قبرستان قائم کی جس کے اراکین میں سرکاری افسران، سماجی و فلاحی اداروں کے نمایندے شامل ہیں یہ کمیٹی اب قبرستانوں کے تمام امور پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے غیر اخلاقی سرگرمیوں پر قابو پایا جاچکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا کوئی ادارہ اپنی ذمے داریاں محسوس کرتا ہے نہ ہی انھیں نبھانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں البتہ بیانات، سیمینارز اور تقریبات میں خوش کن باتوں اور دعوؤں کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ مشہور گلوکار مہدی حسن کے انتقال پر جب ان کی میت پر ملک اور بیرون ملک سے ان کے مداحوں اور بڑے فنکاروں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا تو حکومت اور بلدیہ عظمیٰ نے ان کا عظیم الشان مزار بنانے کا اعلان کیا تھا۔

مزار کے لیے زمین کا ایک بڑا حصہ بھی مختص کیا گیا تھا، مگر بعد میں کسی نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا آج وہاں خاک اڑتی ہے درمیان میں مہدی حسن اور ان کے بیٹے کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ گورکنوں کے مطابق آج بھی وہاں پڑوسی ملک کے نام ور گائیک اور اداکار اپنے رسک پر باقاعدگی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ قبرستانوں میں فاتحہ و تدفین کے لیے آنے والے افراد کو لوٹا بھی جاتا ہے۔ خاص طور پر جس وقت پولیس والوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں اور تمام نفری تھانوں میں موجود ہوتی ہے اس وقت چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ قبرستانوں میں تدفین کے لیے کسی ترتیب و نظم کا کوئی طریقہ کار و اصول نہیں ہوتا جو قبرستان بھر چکے ہیں ان پر تدفین پر پابندی کے بورڈ آویزاں ہونے کے باوجود بڑی رقمیں لے کر قبر کے لیے جگہ نکال دی جاتی ہے۔ قبرستانوں میں ٹھیکیداری نظام ہے ایک قبرستان میں کئی کئی ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔

غربت اور لالچ کی بنا پر گورکن پرانی قبریں کھود کر نئی قبریں تیار کر دیتے ہیں بعض مرتبہ لواحقین بھی دھونس، دھمکی اور خوف کے ذریعے ان گورکنوں کو اس بات پر مجبورکرتے ہیں کہ ان کی میت کے لیے ان کی پسندیدہ جگہ پر کسی پرانی قبر کو کھود کر نئی قبر تیار کر کے دی جائے جس کی وجہ سے گورکنوں سے مارپیٹ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ گورکن اندرون ملک سے اپنے بچوں کے ہمراہ ان قبرستانوں میں قبریں کھودنے، قبریں تعمیر کرنے اور پانی ڈالنے کے فرائض انجام دیتے ہیں، انھی قبرستانوں یا ان کے مضافات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جن میں سے کچھ بچے اور عورتیں قبرستانوں کے اندر گدا گری بھی کرتے ہیں۔ ان کی حالت قابل رحم اور اصلاح طلب ہے البتہ قبرستانوں کے ٹھیکیدار اور متولی کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں 200 کے قریب قبرستان ہیں جن میں بلدیہ کے علاوہ فلاحی اداروں اور صنعتی اداروں کے قبرستان بھی شامل ہیں جب کہ کئی غیر رجسٹرڈ قبرستان بھی ہیں جن میں لوگ خود تدفین کرتے ہیں ان کا کوئی ریکارڈ کسی اتھارٹی کے پاس نہیں ہوتا۔

قبرستانوں کے اندر مذہب، فرقہ اور برادریوں کے حوالے سے بھی کئی قبرستان آباد ہیں جن کی اپنی اپنی چار دیواریاں اور تجہیز و تدفین کا اپنا نظام اور اصول و ضوابط ہیں۔ ایک برادری کے قبرستان کے گیٹ پر نصب قواعد و ضوابط میں تحریر ہے کہ اگر برادری کے کسی مرد نے برادری سے باہر شادی کی تو اس کی تدفین کی اجازت ہو گی مگر اس کے بیوی بچوں کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر برادری کی کسی عورت نے برادری سے باہر شادی کی تو اسے اور اس کی اولاد کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہو گی۔ قبروں پر مرحوم کی شان میں قصیدے لکھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک قبر پر تحریر ہے لیجنڈ اداکار چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ولد نثار مراد۔ حیدرآباد کے قبرستان میں ایک ایسی قبر بھی موجود ہے جس میں مرنے والے کی شبیہ (تصویر) کنندہ ہے قبروں کی تعمیر پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کا رجحان بھی روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔ قبرستانوں میں مزارات کے لیے بھی بڑی بڑی جگہیں گھیری گئی ہیں جنھیں تعمیر کر کے کافی سرمایہ لگایا گیا ہے۔

قبرستانوں میں آپ کو بڑے بڑے مزارات تو جابجا نظر آئیں گے لیکن اگر نماز پڑھنے کے لیے مسجد تلاش کریں تو شاید اس کے احاطے میں آپ کو ایک بھی مسجد نہ مل پائے۔ قبرستانوں میں جگہ جگہ آپ کو ایسی باؤنڈری والز نظر آئیں گی جن میں کوئی قبر موجود نہیں ہو گی تمام جگہ مستقبل کے مردوں کے لیے مختص ہو گی، یہ مہربانیاں بلدیہ کے ذمے داران اثر و رسوخ کے حامل اپنے کرم فرماؤں پر کرتے ہیں اور چند ہزار روپے کا چالان بھر کر ان کو مستقبل میں اس قطعہ اراضی پر تصرف کا اختیار تفویض کر دیتے ہیں ایسی چہار دیواریوں پر ایک نوٹس کنندہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ بہ عوض بلدیہ چالان نمبر فلاں فلاں، فلاں کی ملکیت ہے۔ ماضی میں 22 لاکھ کے وی وی آئی پی حج کی طرح لاہور میں لگژری گریویارڈ کی خبر بھی آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ قبرستان میں جرمنی سے درآمد شدہ فریزرز میں مردوں کو رکھا جاسکے گا۔ درجنوں کیمروں کے ذریعے تدفین کی کوریج ہو گی جس سے رشتہ دار براہ راست تدفین کے تمام مراحل دیکھ سکیں گے۔ تدفین کے شرکا کے سروں پر ہوا کے لیے پنکھے لٹکے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ان رویوں سے لگتا ہے کہ ہمارے ادارے ہی نہیں ہم خود بھی مذہب و اخلاقیات سے عاری خودنمائی، خودپرستی اور نفس گزاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں ہمیں ارباب اختیار، سماجی اور مذہبی حلقوں کی محدود تعداد کی سرپرستی و پذیرائی ضرور حاصل ہے اور بہ حیثیت مجموعی ان کی خاموش تائید بھی حاصل ہے۔

عدنان اشرف ایڈووکیٹ

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بیچارا کراچی اور بےحس سیاست

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے یہ شہر بےحس سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں جو سہولتیں کراچی والوں کو ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں مل رہیں۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور ملتان تک کو میٹرو بس مل گئی، لاہور میں تو اورنج ٹرین بھی آ گئی لیکن کراچی والوں کو بڑی مشکل سے اور وہ بھی وفاقی حکومت کی مہربانی سے آدھی ادھوری گرین بس اسکیم حال ہی میں مل سکی ہے۔ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہو، پانی کا، صفائی کا یا کوئی دوسرا، صوبائی حکومت کی اِن مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں جبکہ بلدیاتی نظام اتنا ناقص اور بے بس ہے کہ وہ بھی ناکارہ ہو چکا ہے۔ اِس سب کی وجہ سے کراچی والوں کی حالت قابلِ ترس ہے۔

پاکستان کا سب سے اہم اور بڑا شہر لیکن سیاسی کشمکش کی وجہ سے اُس کی اور وہاں کے رہنے والوں کی حالت بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ انہی حالات کو بدلنے کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن شہر میں گزشتہ تین چار ہفتوں سے ہزاروں شہریوں کے ساتھ ایک دھرنا دیے ہوئے ہیں جس کا مقصد بلدیاتی نظام کو اِس قابل بنانا ہے کہ کراچی شہر اور اس کے رہنے والوں کو بہترین سہولتیں میسر ہو سکیں۔ افسوس کہ صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ میڈیا بھی اس دھرنے اور دھرنے کے مطالبات پر کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہا، جو کہ قابلِ افسوس رویہ ہے۔ میری درخواست پر نعیم الرحمٰن صاحب نے مجھے دھرنے کے مطالبات بھیجے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں

1۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کی طرح بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے اور جس طرح لندن، نیویارک، پیرس، استنبول، اور تہران وغیرہ کا میئر بااختیار ہے، کراچی کا میئر بھی بااختیار ہونا چاہیے۔

2۔ پیپلز پارٹی حکومت نے کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ میں اوسطاً 17 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی ہے جبکہ کراچی میں 65 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے۔ رواں اخراجات کے لیے جو رقم ملتی ہے اس میں کراچی کو چھٹا ساتواں حصہ ملتا ہے۔ کراچی دھرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں یونین کونسلز کی تعداد 500 سے 600 کے درمیان ہونی چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف 233 یونین کونسلز بنائی ہیں۔ جبکہ کراچی میں زیادہ یونین کونسلز ہوں گی تو گلی محلے کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس لیے کہ ہر یونین کونسل کو سالانہ کم از کم 60 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔

   پاکستان کے باقی شہروں کی طرح کراچی کے میئر کا انتخاب بھی براہِ راست ووٹنگ سے ہونا چاہیے۔

 ۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا قیام 1983 میں میئر کراچی عبدالستار افغانی کے دور میں عمل میں لایا تھا، یہ ادارہ سندھ حکومت نے چھین لیا۔ آخری پانی کا منصوبہ کے تھری، نعمت اللہ خان صاحب نے مکمل کیا جبکہ پچھلے سترہ سال میں کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند پانی کا اضافہ نہیں کیا۔ واٹر بورڈ دوبارہ میئر کے تحت ہونا چاہیے۔

 ۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں اور سابقہ شہری حکومت کی طرح ٹرانسپورٹ کا پورا نظام میئر کےماتحت ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت نے 14 سال میں صرف 10 بسیں چلائی ہیں جبکہ آج کراچی کو کم از کم پانچ ہزار بسوں کی فوری ضرورت ہے۔

 ۔ کراچی میں 3 ہزار سے زیادہ سرکاری اسکولز ہیں، یہ تمام سرکاری اسکولز 2001 سے 2009 تک پہلے سٹی حکومت کے ماتحت تھے، پھر سندھ حکومت نے یہ تمام اسکولز لے لیے اور اب کے ایم سی کے تقریباً ایک ہزار اسکولز بھی لے لیے ہیں۔ یہ تمام سرکاری اسکولز واپس کیے جائیں کیونکہ صوبائی حکومت تعلیم پر توجہ دینے میں ناکام رہی ہے۔

 ۔ نئے بلدیاتی قانون 2021 کے بعد پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے زیر کنٹرول اسپتالوں جیسے عباسی شہید اسپتال، سرفراز رفیقی اسپتال، سوبھراج اسپتال، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سمیت درجن بھر اسپتال اور کے ایم سی کی لاتعداد ڈسپنسریوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سندھ حکومت کے پاس اربوں روپے کا بجٹ ہے مگر ان اسپتالوں میں جاتے ہوئے بھی مریضوں کو خوف آتا ہے، کراچی میں سرکاری شعبے میں صحت کا نظام سندھ حکومت نے تباہ کر دیا ہے۔ یہ اسپتال اور ڈسپنسریاں واپس کے ایم سی کو ملنی چاہئیں :

 ۔ ایک زمانے میں کراچی میں فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، بفرزون اور نارتھ کراچی سمیت متعدد رہائشی منصوبے شروع کیے گئے جہاں لاکھوں افراد کو مناسب قیمت میں پلاٹس مل گئے. سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد کو ٹھکانہ ملا مگر اب سندھ حکومت کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے پر قابض ہے۔ کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے۔ سندھ حکومت نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنا کر قبضہ کر لیا ہے اور یہ ادارہ رشوت کا گڑھ ہے۔ کراچی میں لوگوں کا سرمایہ غیرمحفوظ ہے۔ شہری کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو غیرقانونی تھا۔ ہر بڑے شہر کی طرح ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور بلڈنگ کنٹرول کا نظام میئر کے ماتحت کیا جائے، 2001 سے 2010 تک یہ تمام اتھارٹیز اور کے بی سی شہری حکومت کا حصہ تھا۔

 ۔ کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے،. سندھ حکومت نے لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں،  کوئی انصاف دینے والا نہیں، نہ عدالتیں سنتی ہیں نہ سندھ حکومت۔ ان سوسائٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

 ۔ آئین کے آرٹیکل 140A کے مطابق تمام شہری اداروں کو شہری حکومت کے تحت کیا جائے۔ وفاقی حکومت کا رویہ بھی کراچی کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم نے جس 1100 ارب کے پیکج کا اعلان کیا تھا اب تک 50 ارب بھی کراچی پر خرچ نہیں ہوئے۔ مردم شماری میں کراچی کو آدھا گنا گیا ہے اور 3 کروڑ کی آبادی کو وفاق نے 1 ایک کروڑ 49 لاکھ ظاہر کر کے سنگین ناانصافی کی۔

وفاق کے تحت پانی کی فراہمی کا منصوبہ کے فور، برسوں سے التوا کا شکار ہے، اب 650 ملین گیلن پانی کا منصوبہ کم کر کے 250 ملین گیلن کر دیا گیا ہے، باقاعدہ کام کب شروع ہو گا ؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ کراچی کو روزانہ 1100 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے اور ملتا صرف 550 ملین گیلن ہے اس لیے شہر میں بدترین بحران ہے۔ گرین لائن بس منصوبہ جو ٹاور تک جانا تھا 6 سال بعد بھی نامکمل ہے اور صرف نمائش تک پہنچ سکا ہے، کراچی سرکلر ریلوے اب تک خواب ہے۔ وفاق اور صوبے کی عدم توجہی نے کراچی کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

گرین ٹرانسپورٹ کا آغاز

ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کے حامل ملک کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر کراچی میں 80 ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں پر مشتمل گرین لائن بس سروس کا آغاز ہو گیا۔ وفاق کے تحت 2016ء میں ن لیگ کے دور میں شروع ہونے والا سرد خانے میں پڑا یہ منصوبہ اسی سال پی ٹی آئی حکومت کے جاری کردہ فنڈز کی فراہمی کے بعد ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 10 دسمبر کو اس کا افتتاح کیا تھا اور پندرہ روز آزمائش کے بعد چار چار گھنٹے کی دو شفٹوں پر مشتمل یہ سروس 14 جنوری تک اسی طرح جاری رہے گی جبکہ 15 جنوری سے بسیں پورا دن چلیں گی۔ ایک بس میں بیک وقت 180 افراد سفر کر سکتے ہیں۔ اس میں خواتین، معذور افراد اور مرد مسافروں کیلئے الگ الگ تین سیکشن بنائے گئے ہیں۔ کم از کم کرایہ پندرہ اور زیادہ سے زیادہ 55 روپے مقرر کیا گیا ہے۔

منصوبے کے آغاز میں کل مسافت 21 کلو میٹر رکھی گئی تھی تاہم مسلسل تاخیر کو دیکھتے ہوئے فی الحال سرجانی ٹائون سے نمائش تک کے مسافروں کو یہ سروس میسر آ سکے گی۔ ویسے تو اگر دیکھا جائے پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر معیاری فراہمی مجموعی طور پرپورے ملک کا مسئلہ ہے جہاں شہر شہر بیشتر رکشے، موٹر سائیکل، چنگچی ، ویگنیں غیر محفوظ طریقے سے نیم پختہ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گنجائش سے زیادہ مسافروں کو لیکر چلتی ہیں لیکن شہر قائد میں یہ معاملہ گذشتہ تین چار دہائیوں سے بتدریج گمبھیر صورت اختیار کر تا چلا آیا ہے۔ اگر اس ضمن میں یہ کہا جائے کہ یہاں ٹرانسپورٹ کے ایک مسئلے نے دوسرے بیسیوں مسائل پیدا کر رکھے ہیں تو بے جا نہ ہو گا گذشتہ برس کی طوفانی بارشوں کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورے کے موقع پر اعلیٰ سطحی اجلاس بلا کر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ، پینے کے پانی کی قلت پر قابو پانے ، سیوریج ، ٹرانسپورٹ اور تجاوزات سے نمٹنے کیلئے 100 منصوبوں پر کام شروع کرنے کے پروگرام پر جو اتفاق کیا تھا، بالآخر ٹرانسپورٹ، ٹریفک اور سڑکوں کے مسائل پر آکر یکجا ہو جاتے ہیں جن میں سرکلر ریلوے بھی شامل ہے۔

بیس پچیس سال قبل اس بین الاقوامی شہر میں 25 ہزار چھوٹی بڑی بسیں چلتی تھیں جن کی تعداد اس وقت کم ہو کر پانچ ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔ ان کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملےمیں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں اور سارا کاروبار پرائیویٹ سیکٹر خود چلا رہا ہے جبکہ عدم توجہی کے باعث کوئی بھی شخص یا ٹرانسپورٹ کمپنی سرمایہ کاری کا رسک اٹھانے کو تیار نہیں۔ ادھر صوبائی حکومت کے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبوں میں گرین لائن کے علاوہ ریڈ ، بلیو، اورنج اور یلو لائن بھی شامل ہیں۔ ان میں 78 ارب روپے کی لاگت سے ریڈ لائن منصوبہ 29 کلو میٹر پر مشتمل ہے جس پر 24 اسٹیشن قائم ہونگے اور 213 بسیں چلیں گی، بلیو لائن روٹ 10 کلو میٹر کا ہے ان میں سے اورنج لائن منصوبے کا افتتاح سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کیا تھا تاہم یہ ابھی تک غیر فعال ہے۔ کراچی کا شمار چند ایک بین الاقوامی شہروں میں ہوتا ہے جو اپنے رقبے، جغرافیہ ، صنعت و تجارت، شہری خدوخال میں بڑی مماثلت رکھتے چلے آتے ہیں تاہم گذشتہ کم و بیش چار پانچ دہائیوں سے ان میں فاصلے بدستور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور منی پاکستان کہلایا جانے والا یہ شہر جس حال سے دوچار ہے آئے دن اس کا کوئی نہ کوئی پہلو ہمارے سامنے اپنی بے بسی کی تصویر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

اگر کچھ اور نہیں تو پاکستان کو 75 اور سندھ کو 85 فیصد سے زیادہ آمدنی دینے والے اس شہر کو کم از کم اچھی سڑکیں، ایک سے زیادہ ٹرانسپورٹ کے ذرائع، فراہمی و نکاسی آب کے منصوبے دئیے جانے چاہئیں اور گرین لائن جیسے منصوبوں کی قدر کی جانی چاہئے تاکہ یہ دیر پا ثابت ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

صدر پاکستان کے نام کراچی والوں کا پیغام

صدر صاحب کراچی والوں نے آپ کو کامیاب کرایا صرف اس لئے کہ آپ نے کراچی کی سڑکوں پررکشے میں گھوم گھوم کر کراچی والوں سے بہت وعدے کئے تھے کہ ہم آئیں گے توکراچی کو پیرس بنا دیں گے مگر آپ نے ابھی تک کراچی والوں سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا بلکہ آپ کے دور میں کوٹے کو بھی موخر کر دیا گیا اور وزیر اعظم صاحب نے کراچی والوں کے لئے 1100 ارب کاجو وعدہ کیا تھا وہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوا، کراچی کے لڑکوں پر اب تک نوکریاں بند ہیں، یہاں تک کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بھی جو نوکریاں نکلی ہیں اس میں لکھا ہے کہ کراچی کے ڈومیسائل والے اپلائی نہ کریں آپ بتائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کے ڈی اے کا نام تبدیل کر کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کر دیا گیا ہے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کو بھی ہتھیا لیا گیا اور بلدیاتی انتخابات بھی نہیں کرائے جا رہے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی کو ایک کروڑ دکھایا گیا ہے، جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ تو نادرا کے کارڈ جاری ہو چکے ہیں۔ 

ظلم کی انتہا تو دیکھئے ہر طرف بیروز گاری پھیلائی جا رہی ہے۔ کورونا کی آڑ میں تمام اسکولز بند ہیں، شادی ہال بند ہیں اور جلسے جلوس جاری ہیں۔ اب زبردستی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ کراچی کے اس سے پہلے صدر ممنون حسین کو بھی میں نے یہی خط لکھا تھا کہ آپ کم از کم کراچی کی تکالیف دور کریں، انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ ستم ظریفی تو دیکھئے دیگر صوبوں اور مرکز میں نیلی پیلی ٹرینیں، بسیں، پل، سڑکیں، ہائی ویز اسی کراچی کے پیسوں سے بن چکی ہیں مگر کراچی کو ایک بس بھی میسر نہیں۔ سارا بجٹ سندھ حکومت ہضم کر جاتی ہے اور مرکز سے امداد کی توقع کرتی ہے۔ جناب صدر 5 سال میں سے آپ کو 3 سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کراچی والے آپ کو دوبارہ ووٹ دیں تو آپ کو کراچی کی خدمت کرنی ہو گی جوان کا حق بنتا ہے۔ آپ کو اتنی زیادہ سیٹیں تو ایک صوبے سے بھی نہیں ملیں جتنی ایک شہر نے آپ کو دے دیں۔ انصاف سے کام لیں، سندھ اور کراچی کو برباد ہونے سے بچائیں۔ 

بچپن میں ہم نے پڑھا تھا کہ ایک بادشاہ سلامت نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنی تو صبح وزیروں سے پوچھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کر رہے تھے۔ کیا وجہ ہے؟ اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہو گئی ہو گی اس لیے فریاد کر رہے ہیں تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوا دیا اور کچھ رشتہ داروں اورکچھ دوستوں میں تقسیم کیا۔ اگلی رات کو پھر وہی آوازیں آئیں تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا ؟ وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔ اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں۔ وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کر رہے ہیں تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے۔ صبح پھر موجیں لگ گئیں وزیر کی۔حسب عادت کچھ بسترگھر بھیج دیے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کئے۔ جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیا، وزیر نے کہا کہ جناب وہ سب کچھ ہو گیا ہے، بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں؟ وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئن کرنا ہی تھا اور اوکے کی رپورٹ بھی دینی تھی۔ وہ باہر گیا کہ پتہ کر کے آتا ہوں۔ جب واپس آیا تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کر رہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور روزانہ کرتے رہیں گے۔ بادشاہ یہ سن کے خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا۔ یہی حال ہمارے وزیراعظم صاحب کا بھی ہے۔ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ مگر یہاں رپورٹ سب اوکے کی دی جارہی ہے اور بادشاہ سلامت خوش ہیں کہ آ ئندہ 5 سال کی خوشخبریاں پیشِ خدمت کی جارہی ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے پاکستان میڈ یا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل لانے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سب سے مضحکہ خیز لمحہ وہ تھا جب صدر مملکت نے صحافیوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے پریس گیلری کی جانب نگاہ اٹھائی تو وہ خالی تھی۔ انہوں نے بھنویں اچکائیں اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ہاتھ گھما دیا۔ یہ پارلیمنٹ کی تاریخ کا پہلا اجلاس تھا جس میں صحافیوں کو مدعو نہیں کیا گیا اور انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا۔ پریس گیلری کو تالا لگا دیا گیا۔ صدر صاحب تو شاید اس سے بھی آگاہ نہیں ہوں گے کہ پارلیمنٹ کے باہر مشترکہ احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس لئے انہوں نےاحتجاج کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے 3 برسوں کی مثبت تبدیلیوں کا ذکر کیا۔عمران حکومت اب پی ایم ڈی اے کے ذریعے پاکستان کی صحافت کے حوالے سے سیا ہ ترین باب رقم کرنا چاہ رہی ہے۔ اس کالے قانون کے ذریعے وہ آزادی اظہار سلب کر نا چاہتی ہے۔ کیا یہ وہی عمران صاحب ہیں جو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، مغربی ممالک میں اپنی زندگی گزار کر آئے ہیں، جو پاکستان میں اداروں کی مضبوطی اور استحکام کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے۔ عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے صحافیوں نے اس تبدیلی کا کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ یہ وہی صحافی ہیں، جنہوں نے چینلز پر بیٹھ کر باقاعدہ اس پارٹی کیلئے مہم چلائی تھی۔ لوگوں کو میڈیا کے ذریعے تبدیلی کے سہانے خواب دکھایا کرتے تھے حالانکہ بطور صحافی توآپ کو غیر جانبداری اختیار کرنی چاہئے تھی۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

موسمیاتی خطرات اور شہر کراچی

ڈیڑھ ماہ قبل، انتہائی شدت کے سمندری طوفان ’’شاہین‘‘ نے عمان میں تباہی پھیلا دی۔ تیز ہوائوں، طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے کم از کم 13 افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ طوفان (گلاب) تھا، جو پہلے کراچی سے ٹکرانے والا تھا لیکن چند کلومیٹرکے فاصلے سے اُس نے اپنا رُخ کراچی سے عمان کی جانب موڑ لیا تھا۔ ’’گلاب‘‘ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کے الیکٹرک (کے ای) سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پہلے ہی تیاریاں کر چکے تھے، لیکن متوقع ’’موسلادھار بارشوں‘‘ سے ہونیوالے نقصان کے خدشات نے انھیں پریشان کر رکھا تھا، جس سے شہر کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو شدید خطرات لاحق تھے۔ خوش قسمتی سے طوفان نے اپنا رُخ موڑ لیا اور شہر ممکنہ تباہی سے محفوظ رہا، لیکن کیا ہم مستقبل میں بھی ایسے ہی خوش قسمت ثابت ہوں گے؟ بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع کراچی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار خطوں میں ہوتا ہے اور اسے بدلتے ہوئے موسمیاتی حالات کے تناظر میں دنیا کے 12 ویں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار شہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، کراچی کا موسم بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے، شدید گرمی اور تیز بارشیں معمول بن گئی ہیں۔ گزشتہ سال غیر معمولی بارشوں نے پورے شہر میں تباہی مچادی اور بارشوں کا 9 دہائیوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف اگست 2020 میں 484 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ موسم کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بنیادی انفرا اسٹرکچر مسائل کے باعث کراچی کو ہر سال موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ہر مون سون میں بند گٹروں اور نکاسی آب کا مناسب نظام نہ ہونے کے باعث تقریباً پورے شہر میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات شہر کی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری ہے، جس کی وجہ سے جگہ جگہ تجاوزات قائم ہوگئی ہیں۔ یہ تجاوزات حفاظتی اقدامات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے خطرناک حد تک یوٹیلیٹی انفرا اسٹرکچر کے قریب ہوتے ہیں۔

مزید برآں، کراچی کی غیر منصوبہ بند آبادکاری اور کنکریٹائزیشن نہ صرف بارشوں کے دوران گلیوں کو آبی گزرگاہوں میں تبدیل کر دیتی ہیں بلکہ موسم گرما میں گرمی کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ بھی ہے، جو ’’اربن ہیٹ آئس لینڈ‘‘ اثرات کو جنم دیتی ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن شہر کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کو بڑھتی ہوئی آبادی کی تناسب سے ترقی نہ دی جاسکی ہے، جس کے باعث دبائو پڑنے سے نت نئے مسائل سامنے آتے ہیں۔ مجموعی طور پر کراچی پر غیرمعمولی موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، جن کی شدت میں آنیوالے برسوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ’’تو پھر ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘ہمیں چاہیے کہ بڑھتے ہوئے آب و ہوا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا کے بہترین شہروں کے ڈیزائن کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر آباد کریں۔ کونگجیان یو ایک چینی معمار ہیں جو ’’اسپنج سٹی‘‘ کے تصور پر کام کر رہا ہے، جو شہر کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے قدرتی ماحول سے کنکریٹ کو جوڑ کر قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، یہ کام زیادہ مشکل نہیں۔

درخت لگانے کے ساتھ چھتوں اور دیواروں کو سرسبز بنائیں، جس سے قدرتی طور پر موسمیاتی سختیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ پانی کو خطرہ سمجھنے کے بجائے اُسے شہر کی فلاح و بہبود میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ شمالی چین کا شہر ’’ہاربن‘‘ اپنی سڑکوں پر غیر محفوظ اسفالٹ استعمال کر رہا ہے جو پانی کو زمینی آبی ذخائر میں شامل کر رہا ہے۔ اس طرح پانی ذخیرہ کر کے اُسے ضایع کرنے کے بجائے کہیں اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ یہ ٹیکنالوجی کراچی کی بڑی شاہراہوں شاہراہ فیصل اور آئی آئی چندریگر روڈ میں استعمال کی جائے تو کتنا پانی ضایع ہونے سے بچ جائے گا۔ شدید گرمی اور لُو کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی کے ذریعے شہر کی بنجر زمینوں کو گھنے جنگلات میں تبدیل کر سکتے ہیں، جو سایہ اور ٹھنڈی ہوا فراہم کر کے گرمی کی شدت کو کم کریں گے اور اس سے شہر کا البیڈو بھی بڑھے گا، جس کا مطلب سورج کی شعاعوں کی شدت میں کمی ہے، جس سے درجہ حرارت بھی کم ہو گا۔

کلفٹن اور لیاری کے علاقوں میں دو شہری جنگلات پہلے ہی تیار ہو چکے ہیں، لیکن ہمارے شہر کو سانس لینے کے لیے ایسے جنگلات کی مزید ضرورت ہے۔ مزید برآں ہمیں ’’Cool Pavements‘‘ کے تصور کو اپنانا ہو گا، جس سے مراد سڑک کی سطح ہے،جن میں روایتی تاریک سڑکوں کے برعکس شمسی تابکاری کو منعکس کرنے کے لیے اضافی اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی سڑکیں گرمی کی شدت بڑھانے کا باعث بنتی ہیں، کیوں کہ یہ سورج کی روشنی کو 80 سے 95 فیصد جذب کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہوا گرم ہو جاتی ہے۔ مزید برآں مستقبل میں ہم تعمیرات کے حوالے سے ’’بریز چینلنگ عمارتوں‘‘ کے ڈھانچے کو بھی اپنا سکتے ہیں جو ہوا کے گزرنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شہر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کراچی کے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کو اَپ گریڈ کرنے کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔ خاص طور پر غیرمعمولی بارش اور شدید گرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔

یہ واضح ہے کہ ناقص انفرا اسٹرکچر اور ایڈہاک اربنائزیشن بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ کے ساتھ معیار زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، جس سے شہری پریشان ہیں۔ یہ توقع رکھنا ناانصافی ہو گی کہ شہر کو درپیش چیلنجز سے کسی ایک تنظیم یا ادارے کی مدد سے نمٹا جاسکتا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے اس کے لیے پالیسی سازوں اور آزاد ماہرین کو مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ مشاورت کے ساتھ منصوبہ بندی کی جاسکے۔ ہمیں ایک مشترکہ وژن کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اپنے حصے کے طور پر ’’کے ای‘‘ نے کراچی میں اپنے انفرا اسٹرکچر کو مزید بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ شدید بارش اور پانی بھر جانے کی صورت میں بجلی کی قابل اعتماد فراہمی جاری ہے۔ اپنے منصوبے ’’سربلندی‘‘ کے ایک حصے کے طور پر کے ای کمیونٹیز کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ 

پارکوں کی تزئین و آرائش اور ان کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف سماجی اقدار کی تعمیر میں مدد کرتے ہیں، بلکہ یہ شہر کے گنجان آبادی والے علاقوں کو دوبارہ سرسبز بنانے کی جانب ایک چھوٹا قدم بھی ہے۔ جس سے شہر کی ماحولیات پر خوشگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مزید برآں کے الیکٹرک ہر سال شدید گرمی کے موسم میں سیلانی ویلفیئر جیسی سماجی خدمات میں مصروف تنظیموں کی مدد سے شہر کے مکینوں میں امدادی سامان بھی تقسیم کرتی ہے۔ 20 ملین سے زائد آبادی والے شہر کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کراچی کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے نجی اور سرکاری اداروں کا اشتراک وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں آنیوالے سالوں میں موسمیاتی تبدیلیاں شہر کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔

عمران رانا   
مضمون نگار ،ڈائریکٹر کمیونی کیشنز، کے الیکٹرک ہیں 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پراپرٹی ویلیو میں اضافہ

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس رئیل اسٹیٹ کو معیشت کا باقاعدہ حصہ بنانے کی غرض سے صنعت کا درجہ دینے اور اس کی ترقی کیلئے متعدد مراعات کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے اب تک براہِ راست اور بالواسطہ طور پر تعمیراتی شعبے میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے یہاں تک کہ لوگوں نے نقصان میں جانے والے منصوبوں سے سرمایہ نکال کر تعمیراتی صنعت میں لگایا اور اس وقت ملک کے طول و عرض میں بےشمار ہائوسنگ اسکیمیں اور کمرشل و رہائشی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ مزید برآں تعمیراتی سامان سے متعلق صنعتوں میں بہتری دکھائی دے رہی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سابق ممبر نے ایف بی آر کے غیرمنقولہ پراپرٹی کی ویلیو سے متعلق فیصلے کو فاش غلطی قرار دیا ہے جس کے تحت بعض علاقوں میں 35 سے 700 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 

سابق ممبر ٹیکس پالیسی کے مطابق اس اقدام سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوں گی اور معیشت پر اس کے منفی اثرات رونما ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد کی ویلیو کو زیادہ سے زیادہ دس سے پندرہ فیصد بڑھایا جانا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رئیل اسٹیٹ کی صنعتی عمل میں باقاعدہ شمولیت سے جہاں سرمایہ کاری میں بہتری آئی ہے وہیں ملک کا زرعی رقبہ تیزی سے ہائوسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے کثیر الرقبہ کی بجائے کثیرالمنزلہ عمارات کی تعمیرات پر زور دیتے ہیں۔ ایف بی آر کا متذکرہ اقدام بھی بڑے شہروں میں لوگوں کی نقل مکانی محدود رکھتا دکھائی دیتا ہے تاہم ضروری ہو گا کہ لوگوں کے روزگار اور صنعتی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی سرکلر ریلوے ، عوام سے ایک دفعہ پھر مذاق

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کراچی کو مسلسل پسماندہ رکھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کراچی تشریف لائے انھوں نے ایک دفعہ پھر کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس صدی کے 21 برسوں میں کراچی سرکلر ریلوے کا تیسری دفعہ سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کی تقریب دو دفعہ منعقد ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نے اس تقریب کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی مدعو کیا۔ وزیر اعظم کو اس موقع پر دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کے سی آر منصوبہ پر 207 بلین روپے خرچ کرے گی۔ یہ منصوبہ 18 سے 24 ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہو گا۔ سرکلر ریلوے کے لیے جدید ترین ڈبے اور انجن درآمد کیے جائیں گے اور سرکلر ریلوے کو اس طرح جدید خطوط پر تعمیر کیا جائے گا کہ اس پر دوسرے ٹریفک کو روکنے کے لیے کوئی پھاٹک نہیں ہو گا۔ 

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فوراً ایک وڈیو بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت دراصل کراچی شہر کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔ اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ منصوبہ سابق صدر ایوب خان کے دور میں 1964 میں شروع ہونے والی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان ریلوے نے یہ منصوبہ اپنے ملازمین کو اپنے گھروں سے ڈیوٹی کے مقام تک لے جانے کے لیے تیار کیا تھا۔ سٹی اور کینٹ اسٹیشن سے شروع ہونے والی ریلوے کی مرکزی لائن پپری مارشلنگ یارڈ پر ختم ہوتی ہے۔ دوسری طرف سٹی اسٹیشن ، شیر شاہ ، وزیر منشن ، سائٹ ، ناظم آباد ، لیاقت آباد اور گلشن اقبال سے ہوتی ہوئی اس مقام پر داخل ہوتی ہے۔ جہاں اب گلستانِ جوہر آباد ہے۔ وہاں سے یہ سی او ڈی اسلحہ ڈپو سے ہوتی ہوئی شاہراہ فیصل سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہو جاتی ہے۔ 

ڈرگ کالونی اور لانڈھی سے ایک ریلوے لائن ملیر بھی جاتی ہے۔ ابلاغیات کے استاد پروفیسر سعید عثمانی جنھوں نے برسوں سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے اپنی یاد داشت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں سے سٹی اسٹیشن آنے کا سب سے تیز رفتار، سستا اور محفوظ ذریعہ سرکلر ریلوے تھا۔ صبح کے اوقات میں پپری اور لانڈھی سے ہر دس سے پندرہ منٹ بعد ریل گاڑی چلتی اور ہر اسٹیشن پر اس کا اسٹاپ ایک سے دو منٹ ہوتا تھا اور یہ 45 منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتی۔ اس زمانہ میں صدر سے کینٹ اسٹیشن تک ٹرام چلا کرتی، یوں صبح اپنے دفاتر کام پر جانے والے آسانی سے وقت پر پہنچ جاتے۔ اس زمانہ میں کراچی میں آبادیاں محدود تھیں۔ سائٹ انڈسٹریل ایریا اور لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں کارخانے لگ رہے تھے، یوں مزدوروں کی بستیاں آباد ہو رہی تھیں۔ اس بناء پر سرکلر ریلوے شہر کے بیشتر علاقوں کے نزدیک سے گزرتی تھی۔ 

کراچی میں آبادیاں بلوچستان کے سرحدی شہر حب سے متصل علاقوں سے شروع ہوتی ہیں اور ایک طرف اورنگی ، نیو کراچی، نارتھ کراچی، خدا کی بستی، منگھوپیر اور سپر ہائی وے کے اطراف کی بستیوں اور ایک طرف ضلع ٹھٹھہ کی حدود کے آغاز گھگھر پھاٹک تک پہنچ گئی ہیں۔ سمندر کے کنارے کورنگی، گزری، شیری جناح کالونی، بابا بھٹ اور ہاکس بے و مبارک گوٹھ کے علاقہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔اب 1964 میں ہونے والی منصوبہ بندی کے تحت سرکلر ریلوے کی بحالی شہر کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کی لائن حب سے سپر ہائی وے پر زیرو پوائنٹ تک اور دوسری طرف حب سے بلدیہ ٹاؤن سے ہوتی ہوئی کلفٹن کے ساحل تک وسیع ہونی چاہیے۔ دنیا کے جدید شہروں کی طرح سرکلر ریلوے کی ایک لائن جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک جانی چاہیے تاکہ دیگر شہروں اور خاص طور پر خلیجی ریاستوں سعودی عرب ، امریکا اور یورپی ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کو سفر کی جدید اور محفوظ سہولتیں مل سکیں۔ 

مزدور رہنما منظور رضی جن کی ساری زندگی ریلوے میں خدمت کرتے ہوئے گزری ہے، اس منصوبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ پورے شہر کے لیے تیار نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کا کم سے کم کرایہ 50 روپے رکھا گیا ہے، یوں مزدوروں کے لیے قریبی اسٹیشنوں پر جانے کے لیے بھی 50 روپے دینا ممکن نہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ کم سے کم کرایہ 10 روپے ہونا چاہیے۔منظور رضی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال روزانہ ایک ریل گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ شہریوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے اور روزانہ کم سے کم پانچ گاڑیاں چلنی چاہیئیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ 25 ماہ میں تیار ہو گا، اگر ریلوے انجنیئرز کی خدمات حاصل کی جائیں تو وہ 6 ماہ میں پورا ٹریک تعمیر کر سکتے ہیں۔ 

کراچی کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ اس شہر میں ایک زمانہ میں ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں میسر تھیں جنھیں ایک منصوبہ کے تحت ختم کیا گیا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری صدرکے عہدہ پر فائز ہوئے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔ اسی دوران شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ آصف زرداری نے چین کے بے شمار دورے کیے۔ اسی طرح وہ مہینہ میں کئی دفعہ دبئی جاتے۔ لندن اور نیویارک میں سرکاری طور پر گھومتے رہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں کے لیے چین، ترکی ، دبئی اور لندن وغیرہ کے جدید ماڈلز کی طرح ایسا کوئی منصوبہ شروع کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ شہباز شریف ترکی کی بسوں کا جدید ترین نظام لاہور میں لے آئے۔ 

پیپلز پارٹی کے اکابرین کہتے ہیں کہ چین کی مدد سے تعمیر ہونے والے ترقیاتی کاریڈور سی پیک کی منصوبہ بندی ان کے دور میں ہوئی۔ اس دعویٰ میں حقیقت بھی ہے مگر سی پیک کی منصوبہ بندی میں کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا منصوبہ شامل نہیں ہوا مگر جب میاں نوازشریف وزیر اعظم بنے تو انھوں نے لاہور کے لیے اورنج ٹرین کا منصوبہ سی پیک کے تحت منظور کر لیا۔ صرف یہی نہیں راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کے منصوبے تعمیر ہوئے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی کے لیے گرین لائن کا منصوبہ شروع کیا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ریڈ لائن، یلو لائن سمیت بسوں کے جدید نظام کی تعمیر کے دعوے کیے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے گرین لائن کے لیے بڑا بورڈ سے نمائش تک منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت ریڈ لائن کی تعمیرکے ذریعہ گرین لائن کے منصوبہ کو ٹاور تک پہنچائے گی مگر یہ سب کچھ اخبارات کی فائلوں تک محدود رہا۔

مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو گرین لائن منصوبہ پر کام رک گیا۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور سندھ کے گورنر عمران اسماعیل ہر پانچ ، چھ مہینہ بعد یہ اعلان کرتے ہیں کہ گرین لائن پر بسیں جلد چلنا شروع ہونگی اور اب تین سال گزرنے کے بعد 40 بسیں کراچی کی بندرگاہ پہنچی ہیں۔ اس سال کے اختتام تک گرین لائن پر جدید بسوں کے دوڑنے کے امکانات مبہم ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے بارہ سالہ دور میں 20 سے زائد بسیں نہیں چلائیں۔ جب بھی کوئی بس چلتی ہے تو کچھ دانشور و سوشل میڈیا پر ایسے خوشی سے پوسٹیں لگاتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی نے کراچی میں انڈر گراؤنڈ بسوں کا نیٹ ورک بنا لیا ہے۔ تحریک انصاف نے کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ صدرِ مملکت کے علاوہ کئی طاقتور وزراء کا تعلق کراچی سے ہے۔ اس بناء پر کچھ دور اندیش دانشوروں نے یہ امید باندھ لی تھی کہ وفاقی حکومت کراچی کے لیے انڈر گراؤنڈ ٹرین ، الیکٹرک ٹرام اور جدید بسوں پر مشتمل نظام کی بنیاد رکھے گی مگر آخری تجزیہ یہی ہو سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کراچی کے عوام پر معاشی حملہ

کراچی کے عوام کو مالیاتی بحران میں مبتلا کرنے کی انوکھی تجویز سندھ حکومت کو کسی دانا نے سمجھا دی۔ سندھ حکومت نے کراچی کے عوام پر 9 ارب کا ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ بلدیہ کراچی 100 سے 200 روپے کے الیکٹرک کے ہر میٹر سے وصول کرے گی۔ حکومت سندھ اور کے الیکٹرک کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے تحت بجلی کے بل میں یہ رقم شامل ہو گی۔ کے الیکٹرک یقیناً اس رقم سے سروس چارجز بھی وصول کرے گی۔ حکومت کے پالیسی ساز ذہین اکابرین کا تخمینہ ہے کہ بلدیہ کراچی کے پاس ان بلوں میں سے مزید 9 ارب روپے وصول ہونگے۔ بلدیہ کراچی کے جواں سال ایڈمنسٹریٹر اس فیصلہ کو انقلاب کے تصور سے منسلک کر رہے ہیں۔ بلدیہ کراچی اس مختلف قسم کے 13 ٹیکس وصول کرتی ہے۔ بلدیہ اس ترکیب کے ذریعہ 2 قسم کے ٹیکس جمع کرنے کی خواہش مند ہے۔

اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کے جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلدیہ ان ٹیکسوں کی مد میں سالانہ 21 کروڑ روپے وصول کرتی ہے۔ یہ ٹیکس بلدیہ کراچی اپنے 25 لاکھ 60 ہزار صارفین سے چارج کرے گی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کن صارفین سے 100 روپے اور کن سے 200 روپے وصول کیے جائیں گے۔ بلدیہ کراچی کی زبوں حالی کی اپنی ایک داستان ہے۔ بلدیہ کراچی کا قیام پاکستان کے قیام سے پہلے ہوا۔ کراچی کا نظام چلانے کے لیے کبھی منتخب قیادت کبھی سٹی ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوتے رہے۔ منتخب قیادت اور بیوروکریسی کی زیر نگرانی بلدیہ کراچی کی کارکردگی 50ء اور 60ء کی دہائی میں خاصی بہتر تھی۔ اس زمانہ کے افراد کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ کراچی کی صفائی کا معیار دنیا کے بہت سے شہروں سے بہتر تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے۔ انھوں نے بلدیہ کراچی کو فعال کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کیے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کے بلدیاتی اداروں کے قانون کے تحت میئر آئے۔ اس زمانہ میں کراچی کے حصہ میں موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ کو نہیں ملتا تھا۔ 1985 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے غیر جماعتی بنیادوں پر فوری اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم اور غوث علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے۔ صوبہ کی منتخب قیادت کو بلدیہ کراچی کی سرکشی پسند نہیں آئی۔ عبدالستار افغانی نے موٹر وہیکل ٹیکس کے لیے تحریک چلائی۔ صوبائی حکومت نے میئر کو رخصت کیا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار میئر منتخب ہوئے۔ ان کے عزائم تو بلند تھے مگر ان کے دور میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔

پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومتیں بنائیں۔ 1973 میں واضح طور پر بلدیاتی اداروں کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت اور بعد میں قائم ہونے والی حکومتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں کراچی میں تاریخی ترقیاتی کام ہوئے مگر باقی ادوار میں کراچی ان کے ایجنڈا پر شامل نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں ڈاکٹر فاروق ستار اپنی میعاد پوری کر کے رخصت ہوئے اور پھر بلدیاتی انتخابات بھی نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں سوشلسٹ نظریات کے حامل فہیم الزماں کو ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا۔ پروفیسر محمد نعمان ان کے مشیر ہوئے۔ فہیم الزماں نے شہر کراچی کی ترقی کے لیے کئی منصوبے بنائے۔ کچھ پر عملدرآمد ہوا مگر پھر اچانک رخصت کر دیے گئے۔ جنرل مشرف کے دور میں نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ناظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں کراچی کے شہریوں کو یہ احساس ہوا کہ سرکاری ادارے صفائی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ نعمت اﷲ خان نے ہر شعبہ میں دوررس اقدامات کیے۔ ایم کیو ایم کے مصطفی کمال میئر بنے۔ ان کے دور میں کراچی جدید دور میں داخل ہوا مگر ان کی پالیسیوں کا فائدہ متوسط طبقہ کو ہوا۔ مصطفی کمال کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کے ہزاروں کارکن بلدیہ میں ملازم ہوئے۔ میئر کو وزیر اعظم کے قریب اختیارات حاصل تھے، اس بناء پر گریڈ 1 سے بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین گریڈ میں بھرتیاں ہوئیں۔ مصطفی کمال پرویز مشرف سے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے گرانٹ حاصل نہ کر سکے۔ ان کے دور میں بلدیہ کراچی خسارے کا شکار ہوئی۔ہزاروں ملازمین کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملیں اور ریٹائر ہونے والے ملازمین پنشن سے محروم ہو گئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں کراچی کے عوام میں احساسِ محرومی انتہائی درجہ تک بڑھ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس کراچی کے عوام کے احساسِ محرومی کو کب استعمال کرے گی۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

وہ کراچی کہیں کھو گیا

وہ کراچی کہیں کھو گیا جس کا پورے برصغیر میں شہرہ تھا۔ یہاں امن و امان کی صورت حال مثالی تھی۔ قتل و غارت گری کو تو چھوڑیے چوریاں اور ڈکیتیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ شہر کی صفائی ستھرائی کا یہ حال تھا کہ یہاں کی سڑکیں روز صبح و شام دھلا کرتی تھیں۔ اس شہر کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ یہاں کے شہری اپنی زندگی خوشگوار طریقے سے گزارتے اور کھیل کود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کرکٹ ، ہاکی ، فٹ بال ، بیڈمنٹن اور باکسنگ یہاں کے مقبول کھیل تھے۔ یہاں کے پارک اور گراؤنڈ صاف ستھرے اور ہر قسم کے پودوں اور پھولوں سے مزین تھے۔ یہاں ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ اردو مشاعرے اکثر منعقد ہوتے رہتے تھے جن میں شرکت کے لیے برصغیر کے نامور شعرا یہاں تشریف لاتے تھے جن میں جگر مراد آبادی ، سیماب اکبر آبادی ، حفیظ جالندھری، ماہر القادری ، احسان دانش اورکئی مشہور ہندو شعرا شامل تھے۔ 1940 میں منعقد ہونے والی ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی بھی تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر آپ کراچی کے ساحل سمندر پر واقع تفریحی مقام کلفٹن دیکھنے گئے۔ آپ اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ نے بے ساختہ یہ قطعہ ارشاد فرمایا تھا

سنتا تھا کراچی کی بہت تعریفیں
سمجھا تھا کہ ایک نفیس بندرگاہ ہو گا

دیکھا جو کلفٹن کو تو یہ سوچ ہے اب
کیا باغ ارم سے بھی بہتر ہو گا

کیٹرک ہال اور جمشید میموریل ہال، بندر روڈ میں اکثر ڈرامے دکھائے جاتے تھے، کئی سینما بھی موجود تھے جن میں بمبئی اور لاہور کی بنی ہوئی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ خالق دینا ہال میں مشاعرے، مذہبی اجتماعات اور سیاسی جلسے منعقد ہوتے تھے۔ یہاں کے عوام کی یکجہتی کا یہ حال تھا کبھی ہندو تو کبھی مسلمان میئر منتخب کیا جاتا تھا، گوکہ شہر میں پارسیوں کی آبادی کم تھی مگر ایک پارسی کاروباری شخصیت جمشید نسروانجی مہتا کئی برس تک اس شہرکے میئر رہے۔ انھوں نے اس شہر کی بے مثال خدمت کی۔ انھوں نے اہل کراچی کو ایک مشورہ دیا تھا کہ ہر شخص کو صبح اٹھ کر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنا چاہیے کہ یہ شہر میرا ہے اور اس کی خدمت کرنا میرا فرض ہے، اگر پچاس شہری بھی اس مشورے پر ایمانداری سے عمل پیرا ہو جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان کا یہ مشورہ ماضی کی طرح آج بھی کارآمد ہے اگر ہم اہل کراچی اس پر واقعی عمل کریں تو کراچی کے موجودہ تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔

کراچی کے ایک انگریزی اخبار ’’ڈیلی گزٹ‘‘ کے انگریز مدیر اورکراچی میونسپلٹی کے کونسلر سر مائنٹنگ ویب “Sir Miniting Web” نے 1933 میں کراچی کے تھیوسوفیکل ہال میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس وقت کے کراچی کی خوبیاں ان الفاظ میں بیان کی تھیں۔ ’’کراچی کی آب و ہوا ہندوستان کی دوسری تمام بندرگاہوں سے اچھی اور معتدل ہے۔ یہاں اچھی اور سستی خوراک میسر آسکتی ہے اور صاف و شفاف پانی بہ افراط دستیاب ہے۔ تفریح کے لیے وسیع و عریض میدان، پارک ، کشادہ سڑکیں اور دوسرے نظارے بھی موجود ہیں۔ کراچی کی معروف بندرگاہ اپنوں اور پرایوں کی روزی کا بڑا وسیلہ ہے۔ شہر روز بہ روز وسیع ہو رہا ہے کیونکہ تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ کراچی ہندوستان کی یورپ سے نزدیک ترین بندرگاہ ہے۔ کراچی ہندوستان کا لیور پول اور مشرق کا پیرس ہے۔ اس حسین شہر کی صفائی ستھرائی اور امن لاجواب ہیں۔ اس شہر میں ترقی کے ایسے آثار موجود ہیں کہ مستقبل میں اس کا غیر معمولی ترقی کرنا امر یقینی ہے۔

جنرل چارلس نیپیئر جب یکم اکتوبر 1847 کو سندھ کی گورنری سے مستعفی ہو کر بمبئی جا رہا تھا اس نے بڑی حسرت سے کراچی کے لیے یہ الفاظ کہتے ہوئے الوداع کہا تھا ’’اے کراچی تو عنقریب مشرق کی ملکہ ہو گی، جب تو اس بلند مرتبے پر پہنچے تو میری تمنا ہے کہ میں تجھے ایک بار دیکھ سکوں۔‘‘ قیام پاکستان کے بعد 25 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ان کے اعزاز میں منعقدہ استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کراچی کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا تھا ’’ میں کراچی میں پیدا ہوا۔ اس سرزمین پر اپنا بچپن گزارا۔ بے شک میرے دل میں اس خوبصورت شہر کی بے حد قدر و منزلت ہے مگر یہ اس لیے نہیں کہ اس شہر سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں یا چونکہ میں یہاں پیدا ہوا۔ میں اس شہر کا اس لیے احترام کرتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی شہر نہیں ہے۔ اسے قدرت نے بے شمار نعمتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔

یہ اپنی گوناگوں خوبیوں کی بدولت ایک معمولی قصبے سے ایک عظیم شہر بن کر ابھرا ہے۔ یہ آج موجودہ دور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں یہ بات آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر کا مستقبل تابناک ہے۔ اس کی بندرگاہ یا ہوائی اڈہ ہی نہیں، مستقبل میں پورا شہر لاثانی ہو گا۔ کراچی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس وقت جب کہ دنیا کے تمام بڑے شہر اونچی اونچی عمارتوں سے گھر گئے ہیں، کراچی میں کھلی فضا اور وافر تازہ ہوا موجود ہے۔ یہاں کی کھلی فضا، معتدل موسم اور سمندر کی جانب سے چلنے والی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوائیں نہ صرف یہاں کے شہریوں کو بلکہ سیاحوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ انھیں حقیقی سکون چین اور فرحت بخشتی ہیں، کراچی کو برطانوی دور میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ وائسرائے ہند اکثر کراچی کے دورے پر آتا رہتا تھا۔ جب وائسرائے ہند پہلی مرتبہ کراچی کے دورے پر آیا تو اہل کراچی نے اپنے شہر کو ہندوستان کا دارالخلافہ بنانے کا پرزور مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت تک دراصل دہلی کو ہندوستان کا دارالحکومت قرار نہیں دیا گیا تھا۔

اس وقت انگریز سرکار ہندوستان کے پانچ شہروں میں سے کسی ایک کو ہندوستان کا مستقل دارالحکومت قرار دینے پر غور کر رہی تھی۔ ان شہروں میں شملہ، کلکتہ، دہلی، ساگر (سی پی) اور کراچی شامل تھے۔ افسوس کہ آج وہی ماضی کا سنہرا کراچی اپنی گندگی، چوریوں، ڈکیتیوں اور آلودہ فضا کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہو چکا ہے۔ پانی، بجلی، گیس کی قلت، سڑکوں کی بری حالت، ٹرانسپورٹ کے مسائل کے علاوہ فراہمی و نکاسی آب کے مسائل نے اس شہر کے باسیوں کا جینا اجیرن کر دیا ہے، گٹروں کے ابلنے اور برسات میں شہر کے ڈوبنے کی روایات اب بھی جاری ہیں۔ کورنگی اور لانڈھی کو ڈیفنس کی طرف سے جانے والی سڑکیں ملیر ندی سے گزرتی ہے جو برسات میں اس پر پانی بہنے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے جو کئی کئی دن بند رہتی ہے۔ برسوں سے لانڈھی اور کورنگی کے لاکھوں عوام کو یہ مشکل درپیش ہے مگر سندھ حکومت نے خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔ کاش کہ اس ندی پر ایک پل تعمیر ہو جائے تو ان علاقوں کے عوام کی مشکل دور ہو جائے۔ حال ہی میں عمران خان نے کراچی میں سرکولر ریلوے کو دوبارہ بحال کرنے کے کام کا افتتاح کیا ہے اور پانی کے K-4 منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا ہے۔

عثمان دموہی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کراچی جو ایک شہر تھا

ہمارے درمیان ایک شخص ایسا ہے جسے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے۔ ماں باپ نے اس سے امیدیں وابستہ کیں، محنت مزدوری کر جو تھوڑا بہت جمع کر پائے، اس کی تعلیم پر لگا دیا، بچہ ہونہار نکلا، ذہن کا تیز تھا، اس پر مستزاد محنتی اور وہ بھی اتنا محنتی کہ چشمہ لگانا پڑ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز انجینئر کی امتیازی ڈگری لیے گھر داخل ہوا۔ ماں باپ نے آگے بڑھ کر بلائیں لیں اور اللہ کا شکر ادا کر کے سوچا کہ مشقت کے دن ختم ہوئے، آگے اللہ مہربانی فرمائے گا۔ ہمارے متوسط طبقے کے گھرانوں کے حالات بھی ایسے ہوتے ہیں اور انداز فکر بھی۔ لڑکا صرف ذہین اور محنتی نہیں تھا، مزاج بھی تخلیقی پایا تھا۔ اس شخص کے تخلیقی مزاج کی کہانی بھی عجیب ہے۔ کراچی ایک عظیم شہر ہے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اسے شہر بے کراں کہا کرتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ شہر کے اندر ہی فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ چلتے چلتے پہر بیت جاتے ہیں لیکن سفر ختم نہیں ہوتا۔ شہروں کے ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سواریاں ایجاد ہوئیں۔

سب سے آسان اور سستی سواری تو بائیسکل ہے لیکن کراچی کے فاصلوں سے نمٹنا ان دو پہیوں کے بس میں نہیں۔ کراچی شہر میں اس مشکل کا حل موٹر سائیکل ہے لیکن سستے زمانوں میں بھی موٹر سائیکل کی خریداری پر پانچ سات ہزار تو لگ ہی جاتے تھے۔ ہمارے عہد کے بچے اتنے پیسے تو سوچے سمجھے بغیر خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن جس زمانے کا یہ واقعہ ہے، اتنے پیسے جمع کرنے کے لیے برسوں نہیں تو مہینے تو لگ ہی جایا کرتے تھے۔ ایسی صورت میں کے ٹی سی (کراچی ٹرانسپورٹ سروس) کی بس یا اڑے بیٹ (بیٹھ) یا آگے بڑ، آگے بڑ (بڑھ) والی منی بس کے کرایوں سے بھی کم پاکٹ منی پانے والا نوجوان کیا کرے؟ اس نونہال نے اس سوال پر غور کیا اور سوچا کہ چلو موٹر سائیکل خریدنا مشکل ہے تو مشکل ہی سہی، کیوں نہ اپنی بائیسکل کو ہی موٹر سائیکل بنا لیا جائے، پھر یہ نوجوان یہ کارنامہ کر گزرا۔ یہ شخص اپنی خداداد ذہانت کو کام میں لایا اور سائیکل کے پہیے کے ساتھ ایک ایسا چھوٹا سا انجن منسلک کرنے میں کامیاب ہو گیا جس نے پیڈل مار مار چند کلومیٹر فی گھنٹہ سفر کرنے والی بائیسکل کو تھکے بغیر میلوں بھاگنے والی آٹو سائیکل میں بدل دیا۔

ایک شام گھر کے ویران پچھواڑے میں اپنی ایجاد مکمل کرنے کے بعد جب وہ سڑک پر اسے لایا اور اس کی۔ قد ساختہ آٹو سائیکل زوں زوں کرتی ہوئی منی بس کی رفتار کا مقابلہ کرنے لگی تو دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ اس کا یہی کارنامہ محبت کرنے والے والدین کے ذہن میں تھا، یہی سبب تھا کہ اس کے انجینئر بننے پر خوشی منائی گئی اور توقع رکھی گئی کہ یہ بچہ یقینا ہمارا نام روشن کرے گا۔ پھر یہی ہوا۔ اس لڑکے نے ماں باپ کا نام روشن کیا لیکن انجینئر بن کر نہیں بلکہ ایک اور کارنامہ انجام دے کر۔ اس شخص نے اپنی تعلیم، ذہانت اور محنت ایک طرف رکھی اور سیاح بن گیا۔ سیاح بننے کے بعد ایک اور دور کی ایک اور کوڑی اسے سوجھی، وہ سیاح کے ساتھ ساتھ سفر نامہ نگار بھی بن گیا، یوں وہ دیکھتے ہی دیکھتے آٹھ دس سفر ناموں کا مصنف بن گیا۔ آج اپنی اسی شہرت کی وجہ سے وہ یہاں وہاں معروف ہی نہیں، مقبول بھی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی کتابوں نے اہل تحقیق کو بھی متوجہ کیا اور کرنے والوں نے ان پر ایم فل کر لیا۔

سیاح بننے کے بعد اس کے ذوق جہاں گردی میں سب سے بڑی رکاوٹ روزگار نے ڈالی۔ آپ نوکری بھی کریں اور بیگ اٹھا کر جب چاہے چل دیں، آج کے کارپوریٹ معاشرے میں کون آجر اس کی اجازت دیتا ہے؟ بس، وہ پہلا ہی دن رہا ہو گا جب کوئی باس اس کی سیاحت میں رکاوٹ بنا تو اس نے معاش کے اس ذریعے یعنی نوکری کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔ اب وہ پشاور جاتا ہے، شہد خریدتا ہے اور اپنی شہد جیسی باتوں کے ساتھ شہد کی بوتلیں بیچ ڈالتا ہے۔ اس میں کچھ کمی رہ جائے تو اونے پونے کے نام وہ چیزیں جو ہم کبھی خریدتے ہیں، ایک آدھ بار استعمال کرتے ہیں پھر انھیں بھول جاتے ہیں یا کچھ ایسی کتابیں جنھیں لوگ پڑھ کر کسی کونے کھدرے میں پھینک دیتے ہیں، یہ سب چیزیں دوست احباب اس تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ انھیں اونے پونے کے نام سے بیچ دیتا ہے۔ میں خود تھرڈ کلاس الیکٹرک ایکسٹینشنز خرید خرید کر تنگ آچکا تھا، اس کے اونے پونے اسٹور سے مجھے تھوڑے سے پیسوں سے ایک ایسی ایکسٹینشن مل گئی کہ سارے دلدر دور ہو گئے۔

یہ تذکرہ تھوڑا طویل ہو گیا، اصل میں بتانا یہ تھا کہ سفر نامے لکھتے لکھتے ہمیشہ کی طرح اس کے ذہن میں ایک اور سودا سمایا، اس نے اپنے بچپن سے اب تک کے کراچی کی لفظی تصویریں بنانی شروع کر دیں جو کچھ عرصہ قبل ’’کراچی جو ایک شہر تھا‘‘کے عنوان سے شایع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔ اصل میں انسانوں کی طرح شہروں پر بھی بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرح اچھے برے ادوار آتے ہیں۔ یہ سب کیفیات شہروں کے چہروں پر کندہ ہوتی ہیں، بس، انھیں پڑھنے والا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ہمارے اس دوست یعنی عبیداللہ کیہر میں یہ صلاحیت موجود تھی۔ عبید کی یہ کتاب پڑھئے تو لگتا ہے، جیسے آپ فلم دیکھ رہے ہیں۔ ایک ہی نشست میں وہ شہر بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، ماہی گیروں کی بستی کے نام سے تاریخ میں جس کے تذکرے ملتے ہیں۔ وہ راستے گلی محلے اور جھونپڑ جھونپڑیاں بھی دکھائی دیتی ہیں جو کھوکھراپار کے راستے پاکستان ہجرت کرنے والوں نے بنائی ہوں گی اور ان بلوچوں اور سندھیوں اور ان کی بستیوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جن کے پرکھوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی ہو گی۔

اس کتاب میں وہ آثار بھی دکھائی دیتے ہیں جن کی مدد سے قیام پاکستان کے بعد اس شہر نے چٹکیوں میں ترقی کی اور اس تباہی کے مناظر دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے جو اسی اور نوے کی دہائیوں میں اس شہر کی تباہی کا باعث بنے۔ سب سے بڑھ کر ملیر کی بارشیں جن سے بھیگ کر یہاں کے لوگوں میں زندہ دلی پیدا ہوئی اور زمینوں میں زرخیری۔ سچ پوچھئے تو یہ کتاب پڑھ کر یقین آ جاتا ہے کہ کراچی ایک شہر خوباں ہے۔ حسنیوں کو قدرت کی طرف سے اگر حسن کی دولت ملتی تو یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں آزمائشوں کا سامنا بھی دوسروں سے بڑھ کر کرنا پڑتا ہے۔ اس شہر پر بھی یہی کچھ بیتا ہے۔ عبید کی اس کتاب میں ہمیں یہ سب مناظر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے یہ سب پڑھا اور دیکھا تو اس پر لکھنے کی خواہش نے سر اٹھایا لیکن معلوم ہوا کہ یہ شخص بہت تیز رفتار ہے جتنی دیر میں ہم لوگ کالم لکھتے ہیں، یہ کتاب مکمل کر لیتا ہے۔ میں ابھی کراچی کے تذکرے سے ہی لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اتنے میں اس کی دو تین کتابیں مزید سامنے آگئیں۔ کیا کیا جائے، یہ شخص ہے ہی اتنا تیز رفتار۔ ابھی میں اس کی کتابوں سے نمٹ نہیں پایا تھا کہ اب اس نے کرا چی کے دلچسپ محاوروں پر پروگرام شروع کر دیے ہیں اور بتایا ہے کہ ’’الاہٹ‘‘ کوئی لفظ یا ترکیب ہو یا نہ ہو لیکن کراچی میں اس کا مطلب ہوتا ہے، تیز رفتار۔

فاروق عادل

بشکریہ ایکسپریس نیوز