بیچارا کراچی اور بےحس سیاست

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے یہ شہر بےحس سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں جو سہولتیں کراچی والوں کو ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں مل رہیں۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور ملتان تک کو میٹرو بس مل گئی، لاہور میں تو اورنج ٹرین بھی آ گئی لیکن کراچی والوں کو بڑی مشکل سے اور وہ بھی وفاقی حکومت کی مہربانی سے آدھی ادھوری گرین بس اسکیم حال ہی میں مل سکی ہے۔ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہو، پانی کا، صفائی کا یا کوئی دوسرا، صوبائی حکومت کی اِن مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں جبکہ بلدیاتی نظام اتنا ناقص اور بے بس ہے کہ وہ بھی ناکارہ ہو چکا ہے۔ اِس سب کی وجہ سے کراچی والوں کی حالت قابلِ ترس ہے۔

پاکستان کا سب سے اہم اور بڑا شہر لیکن سیاسی کشمکش کی وجہ سے اُس کی اور وہاں کے رہنے والوں کی حالت بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ انہی حالات کو بدلنے کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن شہر میں گزشتہ تین چار ہفتوں سے ہزاروں شہریوں کے ساتھ ایک دھرنا دیے ہوئے ہیں جس کا مقصد بلدیاتی نظام کو اِس قابل بنانا ہے کہ کراچی شہر اور اس کے رہنے والوں کو بہترین سہولتیں میسر ہو سکیں۔ افسوس کہ صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ میڈیا بھی اس دھرنے اور دھرنے کے مطالبات پر کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہا، جو کہ قابلِ افسوس رویہ ہے۔ میری درخواست پر نعیم الرحمٰن صاحب نے مجھے دھرنے کے مطالبات بھیجے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں

1۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کی طرح بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے اور جس طرح لندن، نیویارک، پیرس، استنبول، اور تہران وغیرہ کا میئر بااختیار ہے، کراچی کا میئر بھی بااختیار ہونا چاہیے۔

2۔ پیپلز پارٹی حکومت نے کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ میں اوسطاً 17 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی ہے جبکہ کراچی میں 65 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے۔ رواں اخراجات کے لیے جو رقم ملتی ہے اس میں کراچی کو چھٹا ساتواں حصہ ملتا ہے۔ کراچی دھرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں یونین کونسلز کی تعداد 500 سے 600 کے درمیان ہونی چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف 233 یونین کونسلز بنائی ہیں۔ جبکہ کراچی میں زیادہ یونین کونسلز ہوں گی تو گلی محلے کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس لیے کہ ہر یونین کونسل کو سالانہ کم از کم 60 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔

   پاکستان کے باقی شہروں کی طرح کراچی کے میئر کا انتخاب بھی براہِ راست ووٹنگ سے ہونا چاہیے۔

 ۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا قیام 1983 میں میئر کراچی عبدالستار افغانی کے دور میں عمل میں لایا تھا، یہ ادارہ سندھ حکومت نے چھین لیا۔ آخری پانی کا منصوبہ کے تھری، نعمت اللہ خان صاحب نے مکمل کیا جبکہ پچھلے سترہ سال میں کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند پانی کا اضافہ نہیں کیا۔ واٹر بورڈ دوبارہ میئر کے تحت ہونا چاہیے۔

 ۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں اور سابقہ شہری حکومت کی طرح ٹرانسپورٹ کا پورا نظام میئر کےماتحت ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت نے 14 سال میں صرف 10 بسیں چلائی ہیں جبکہ آج کراچی کو کم از کم پانچ ہزار بسوں کی فوری ضرورت ہے۔

 ۔ کراچی میں 3 ہزار سے زیادہ سرکاری اسکولز ہیں، یہ تمام سرکاری اسکولز 2001 سے 2009 تک پہلے سٹی حکومت کے ماتحت تھے، پھر سندھ حکومت نے یہ تمام اسکولز لے لیے اور اب کے ایم سی کے تقریباً ایک ہزار اسکولز بھی لے لیے ہیں۔ یہ تمام سرکاری اسکولز واپس کیے جائیں کیونکہ صوبائی حکومت تعلیم پر توجہ دینے میں ناکام رہی ہے۔

 ۔ نئے بلدیاتی قانون 2021 کے بعد پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے زیر کنٹرول اسپتالوں جیسے عباسی شہید اسپتال، سرفراز رفیقی اسپتال، سوبھراج اسپتال، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سمیت درجن بھر اسپتال اور کے ایم سی کی لاتعداد ڈسپنسریوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سندھ حکومت کے پاس اربوں روپے کا بجٹ ہے مگر ان اسپتالوں میں جاتے ہوئے بھی مریضوں کو خوف آتا ہے، کراچی میں سرکاری شعبے میں صحت کا نظام سندھ حکومت نے تباہ کر دیا ہے۔ یہ اسپتال اور ڈسپنسریاں واپس کے ایم سی کو ملنی چاہئیں :

 ۔ ایک زمانے میں کراچی میں فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، بفرزون اور نارتھ کراچی سمیت متعدد رہائشی منصوبے شروع کیے گئے جہاں لاکھوں افراد کو مناسب قیمت میں پلاٹس مل گئے. سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد کو ٹھکانہ ملا مگر اب سندھ حکومت کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے پر قابض ہے۔ کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے۔ سندھ حکومت نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنا کر قبضہ کر لیا ہے اور یہ ادارہ رشوت کا گڑھ ہے۔ کراچی میں لوگوں کا سرمایہ غیرمحفوظ ہے۔ شہری کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو غیرقانونی تھا۔ ہر بڑے شہر کی طرح ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور بلڈنگ کنٹرول کا نظام میئر کے ماتحت کیا جائے، 2001 سے 2010 تک یہ تمام اتھارٹیز اور کے بی سی شہری حکومت کا حصہ تھا۔

 ۔ کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے،. سندھ حکومت نے لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں،  کوئی انصاف دینے والا نہیں، نہ عدالتیں سنتی ہیں نہ سندھ حکومت۔ ان سوسائٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

 ۔ آئین کے آرٹیکل 140A کے مطابق تمام شہری اداروں کو شہری حکومت کے تحت کیا جائے۔ وفاقی حکومت کا رویہ بھی کراچی کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم نے جس 1100 ارب کے پیکج کا اعلان کیا تھا اب تک 50 ارب بھی کراچی پر خرچ نہیں ہوئے۔ مردم شماری میں کراچی کو آدھا گنا گیا ہے اور 3 کروڑ کی آبادی کو وفاق نے 1 ایک کروڑ 49 لاکھ ظاہر کر کے سنگین ناانصافی کی۔

وفاق کے تحت پانی کی فراہمی کا منصوبہ کے فور، برسوں سے التوا کا شکار ہے، اب 650 ملین گیلن پانی کا منصوبہ کم کر کے 250 ملین گیلن کر دیا گیا ہے، باقاعدہ کام کب شروع ہو گا ؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ کراچی کو روزانہ 1100 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے اور ملتا صرف 550 ملین گیلن ہے اس لیے شہر میں بدترین بحران ہے۔ گرین لائن بس منصوبہ جو ٹاور تک جانا تھا 6 سال بعد بھی نامکمل ہے اور صرف نمائش تک پہنچ سکا ہے، کراچی سرکلر ریلوے اب تک خواب ہے۔ وفاق اور صوبے کی عدم توجہی نے کراچی کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Leave a comment