گمبھیر کراچی کا غیر سیاسی حل

بلدیاتی انتخابات سے بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی کا جو نظام قائم ہوا تھا اس میں کراچی اپنی جملہ قباحتوں کے باوجود موجود اور بڑھتی بنیادی ضرورتوں کو تو پورا کر رہا تھا، شجرکاری کے نئے تجربات کامیاب ہو کر یہ سبز ہو رہا تھا، بڑھتی ٹریفک کی روانی کے لئے انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برج بن رہے تھے، پانی کی تقسیم دوسرے شہروں سے قدرے قیمتاً زیادہ ہی سہی لیکن ٹھیک تھی، نکاسی آب اور صفائی ستھرائی کا سینی ٹیشن سسٹم چند فیصد خامیوں کمیوں کے ساتھ بحیثیت مجموعی درست کام کر رہا تھا بلکہ کراچی کے جتنے میئر خواہ جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم کے آئے، اتنے عظیم شہر میں بہترین کارکردگی پر ان کی کراچی ہی نہیں ملک اور بیرون ملک بھی تحسین ہوئی۔ شہر میں پیپلز پارٹی کے اثر کی پاکٹس میں منتخب کونسلر بھی کار خیر میں سرگرم رہ کر پارٹی پوزیشن اور اپنے اثر کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ متذکرہ ادوار میں کراچی، بلدیاتی نظام کے متوازی سیاسی عدم استحکام ، انتشار حتیٰ کہ انارکی کی سطح تک بھی پہنچ گیا تھا لیکن کافی مستعد بلدیاتی نظام کے باعث شہریوں کو ٹرانسپورٹ، سینی ٹیشن سسٹم، پینے کے پانی کی فراہمی، سٹریٹ لائٹس وغیرہ جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام کبھی منہدم نہیں ہوا، جو باریاں پوری کرنے والے ’’بدترین جمہوریت کے دور‘‘ میں ہوتا ہوتا نوبت آج کے المناک کراچی تک پہنچ گئی ہے۔ جس کی حالت زار (عوامی احتجاج کی ضرورت ہی نہیں) اس شہر بابرکت پر بیتی دردناک کہانی خود سنا رہی ہے۔ عدالتی احکامات سے منتخب صوبائی حکومتوں نے بالکل بے بس ہو کر آئینی تقاضے کے مطابق جو بلدیاتی انتخابات کرائے اس کے نتیجے میں بحال ہونے والے کراچی کے نحیف بلدیاتی نظام کو بھی بے بس کر دیا گیا۔ صوبائی حکومت اور میئر کے درمیان جوتیوں میں دال بٹتی بٹتی میئر کی مدت ختم ہو گئی لیکن کراچی میں وہ بلدیاتی نظام بحال نہ ہو سکا جو پورے ملک میں سب سے امتیازی کراچی کا ہی ہوتا رہا۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلافات اور بچے کھچے ڈگمگاتے نظام کو بھی جامد رکھنے والے گیپس کی نہ ختم ہونے والی داستان بھی سراپا فکر و تشویش ہے۔ کراچی پر رحم کرتے صوبائی حکومت، شہر میں تحریک انصاف کی نئی بننے والی پارلیمانی طاقت اور دوسری بڑی منتخب جماعت گڈ ایم اکیو ایم مل کر بھی کچھ اچھا کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ ایک رابطہ کمیٹی جو حال ہی میں بنی بھی کراچی میں طوفانی بارشوں کے سلسلے سے جو تباہی مچی ہے، اس سے کراہتا، تیزی سے محروم ہوتا اور سیاسی دھینگا مشتی میں پہلے سے مبتلا کراچی بالآخر میڈیا کے ایجنڈے میں اولین ہو ہی گیا۔ دیکھتے ہیں میڈیا گھمبیر ہوئے شہر قائد کی بحالی کے لئے اپنی کمیونی کیشن سپورٹ کتنی اور کیسے فراہم کرتا ہے اور یہ کب اور کتنی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جہاں تک موضوع پر سیاسی ابلاغ کا تعلق ہے، وہ تو کج بحثی اور بلیم گیم سے ڈیزاسٹر پیدا کرنے والی قابل تحقیق کیس اسٹڈی بنی ہے۔ پاکستان کے شہر اس بے بہا کی حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی نے قیام پاکستان کے بعد چار عشروں میں تو تیز ترقی کی، جو حکومتوں سے زیادہ ہمارے اس مرکز اقتصادیات میں ملک بھر سے جمع ہوئی بہترین افرادی قوت کی مرہون منت ہے۔

ملکی دارالحکومت کے تشخص سے محروم ہونے کے بعد بھی کراچی کی تعمیر و ترقی اور تابناکی قابل رشک رہی، اور اس نے ’’منی پاکستان ‘‘ ہونے کا نیا امتیاز حاصل کیا۔ پھر مختلف سیاسی اطراف و ذرائع سے کچھ غلط ہونے لگا، جو بڑھتا گیا اور اتنا کہ کراچی کو دھچکے لگنا شروع ہو گئے۔ یہ کبھی پٹڑی سے اترتا اور کبھی چڑھتا اور پھر اتر ہی گیا۔ پھر بھی بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بڑھتی بدنظمی، سیاسی انتشار اور طویل دہشت گردی کی زد میں آنے پر بھی جیسے تیسے گزارا ہوتا رہا ۔ این آر او نے بگڑے آئین کا حلیہ درست کرنے اور گزرے سیاسی ادوار کے ڈیزاسٹرز کے کفارے کی جو راہ ہموار کی اس میں آئین کا بگڑا حلیہ درست ہونے پر بھی سابقہ معیار کے بلدیاتی نظام کی جگہ نہ بننے دی گئی، اور بحالی جمہوریت کے بعد کا پہلا عشرہ ہونا تو کفارے کا عشرہ چاہئے تھا لیکن یہ فقط باریاں پوری کرنے والی کرپٹ اور نااہل حکومتوں کے اقتدار کی باریاں پوری کرنے والا ثابت رہا ۔

تسلی کراچی والوں کو ہی نہیں پوری قوم کو راس ’’باکمال‘‘ بیانیے سے دی گی کہ ’’ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے ‘‘ شاید بیانیہ تراشنے والے کا دل بھی مان رہا تھا کہ سول ملٹری حکومت کے گزرے عشرے میں کراچی کی جاری تباہ کاریوں میں نہ جانے کیا غائب ہے ؟ اس میں شدید مطلوب باہمی اعتماد کے مکمل فقدان کی شنید بھی ہے۔ ان تمام ترین تلخ حقائق کے باوجود کراچی کی سول سوسائٹی کا غیر سیاسی سیکشن بڑا بھرپور اور مردم خیز ہے ۔ یہاں کی فقط ملکی وسائل پر چلنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOS) پہلے ہی شہریوں کی گراں قدر خدمات میں مصروف عمل ہیں اسی شہر سے دنیا کا سب سے بڑا فری ایمبولینس سروس کا ملک گیر سسٹم بنا جو بانی کے انتقال کے بعد بھی کامیابی سے چل رہا ہے ایسے ہی غیر سیاسی اشرافیہ میں ایک سے بڑھ کر ایک پوٹینشل سٹیزن ہے کامیاب فلاحی اداروں کی بھی کمی نہیں ۔

اب وہی باہر نکل آئیں اور فقط تین بنیادی سہولتوں، جلد سے جلد دستیاب محفوظ اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سروس، پینے کے صاف پانی کی مطلوب مقدار میں فراہمی، نکاسی آب اور صفائی (سینی ٹیشن سسٹم) پر فوکس کریں اپنی کاوش پر سیاسی سایہ بھی نہ پڑنے دیں برین سٹارمنگ میں جائیں اور جائزہ لیں کہ وہ کیسی مہم برائے بحالی شہری حقوق چلائیں کہ سیاسی ذمے داران پٹڑی پر آ جائیں۔ کیسے ممکن ہو کہ ان فوری ضرورتوں کے لئے فنڈز کہاں سے لینے اور کتنے آئیں، اور انہیں اسے کیسے خرچ کرایا جائے کہ ایک دھیلے کی کرپشن بھی نہ ہونے پائے سیاسی منتخب نمائندوں کو کسی سلیقے اور قابل قبول طریقے سے ہوم ورک کے بعد ضرور ساتھ ملایا جائے بلکہ سب کچھ انہی سے کرایا جائے لیکن لائحہ عمل کی تیاری اور مانیٹرنگ کی حد تک کراچی کے غیر سیاسی سوک پریشر کو استعمال کرنا ہی پڑے گا کہ ان ہی کی بیداری اور تعقب سب سے زیادہ موثر اور باجواز ہو گا۔

ڈاکٹر مجاہد منصوری

بشکریہ روزنامہ جنگ

شہر قائد کی بربادی کا ذمہ دار کون

حالیہ بارشوں کے بعد کراچی میں غریبوں کے گھر گھر شامِ غریباں ہے، اس محرم کا نوحہ یہ ہے کہ چہار دام ماتم بس ماتم ہے۔ آزمائش کے ان شب وروز سے کس طرح یکسوئی سے نکلنا ہے اور دکھی دلوں پر مرہم رکھ کر مستقبل میں ایسی بلاخیز تباہ کاریوں سے بچنا ہے، اس جانب حکمران طبقات میں توجہ کی ضرورت کا کوئی احساس نہیں، بلکہ اس وقت قائد اعظم کے اس شہر کی مثال اُس ماں کی سی ہے جس کی موت پر نالائق اور خود غرض بیٹے اپنے سے چھوٹے بھائیوں کی فکر کی بجائے اس بات پر اختلاف کا میدان گرم کئے ہوں کہ دوسرے نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ یہی حال ان دنوں وفاق ، سندھ حکومت اور میئرکراچی یعنی بلدیاتی اختیارمندوں کا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ وفاق کو سب سے زیادہ ریونیو دینے اور کاروبار و روزگار کے بے قید مواقع رکھنے والے کراچی کی یوں بے چارگی میں اُن تمام اختیارمندوں کا حصہ ہے جو اس وقت باہم دست وگریباں ہیں یا پھر جنہوں نے خود کو ناگزیر بنانے کیلئے ان عناصر کو بوٹیوں پر لڑا ئے رکھا ہو۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔

تمام عمر کئے،چاک دامنی کے گلے
بعزمِ بخیہ گری بخیہ گرکا ذکر کریں

عروس البلاد کو اندھیروں کی آماجگاہ کس نے بنایا، قائد اعظم کے اس مسکن کو خوف و دہشت سے کس نے بھر دیا، سونے کی اس چڑیا کو لوٹ کر محلات کس نے آراستہ کئے،ان تمام حقائق سے ہر ذی شعور شہری آگاہ ہے، بقول حفیظ جالندھری ، وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی ۔ اس غریب پرور شہر کی بدنصیبی کا آغاز اُس وقت ہوا جب انتخابات میں آمر جنرل ایوب خان کی جنیاتی کا میابی کے دیوتائی جشن کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر بجلی عمرایوب کے والد گرامی نے اپنی فوجِ ظفر موج کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کے حامی نہتے مہاجروں کی بستیوں پر یلغار کی، اس شخص نے اپنے بعض پختون پتھاریداروں کے باوصف اسے پختونوں کا لشکر باور کرایا۔ درحقیقت گوہر ایوب نہ تو اُس وقت پختونوں کے نمائندے تھے اور نہ آج ہیں۔ان صدارتی انتخابات میں پختونوں نے مرحوم و مغفور ولی خان کی قیادت میں محترمہ فاطمہ جناح کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ ولی خان مرحوم ان انتخابات میں آمر مطلق کیخلاف محترمہ فاطمہ جناح کے صوبہ سرحد (پختونخوا) میں انتخابی مہم کے نگراں تھے۔

لیکن پھر اسی کراچی کے دروبام نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہ لوگ جو خود کو مہاجر قیادت کا ستونِ غیر متزلزل کہتے ہیں (اور ایسا ظاہر بھی ہوا) وہ ہزارہ صوبے کی حمایت میں اُنہی گوہر ایوب کے رفیق کار تھے جن پر کراچی کو تاراج کرنے کا الزام تھا۔ بنا بریں آج بھی اُسی گوہر ایوب کے صاحبزادے عمرایوب کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ راقم کی نظر میں کراچی کے خلاف ڈکٹیٹر ایوب خان کا یہ ڈاکٹرائن اس لئے زہر قاتل بنا کہ اُس دن کے بعد سے آج تک یہاں مسکن پذیر لسانی اکائیاں شہر کی تعمیر و ترقی کی بجائے اپنی توانائیاں زیادہ تر ایک دوسرے کیخلاف بروئے کار لاتی رہی ہیں۔ نوگو ایریا ز بن گئے، صاف نظر آتا ہے کہ کو ن سا علاقہ کس کے دستِ عنایت یا مشقِ ستم تلے ہے۔ اس وجہ سے بھی جس کے ہاتھ میں جو اختیار آیا تو ذاتی مقاصد کے ساتھ ساتھ اُسے گروہی و جماعتی مفاد کے تناظر میں استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت میئر عبدالستار افغانی اور بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کیپٹن فہیم الزماں کے، ہمیں کوئی اور دور ایسا نظر نہیں آتا جس میں وسائل انفراسٹرکچر سمیت بنیادی مسائل پر صرف کئے گئے ہوں۔

شہر کا زیادہ تر نظام اُسی دور کا استوار شدہ ہے اس کے بعد اس میں نئے حالات کے مطابق کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ لسانی تفریق کی ابتدا ایک آمر نے کی جسے اس کے بھائی بند جنرل ضیا الحق اور پھر پرویز مشرف نے بڑے سلیقے سے آگے بڑھایا، نیز آمر ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے تمام تر جوہر کے ساتھ اس کا خیال رکھا، انہی کے دور میں مہاجر سندھی فسادات ہوئے۔ بیگانگی کے اس ماحول کو پروان چڑھانے کا اصل مقصد جمہوریت کی نفی تھا۔ موقع پرست سیاستدان جن کے کام آئے۔ ان نظام کش کوششوں کا اصل ہدف پورا ملک بالخصوص کراچی اس لئے بھی ٹھہرا کہ یہی شہر ہر جمہوری تحریک کا روح رواں تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ جس ملک میں مستحکم جمہوری نظام نہ ہو ، اور کام ایڈہاک ازم پر چلایا جاتا ہو، اُس میں مافیاز اتنی ہی آزاد ہوتی ہیں جتنی پاکستان میں ہیں۔ اس تناظر میں کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ جیسے سفید ہاتھی سمیت تمام سیاسی و غیر سیاسی ان مافیاز سے بھلا کراچی جیسی سونے کی چڑیا کیونکر بچ سکتی تھی سو جو حال ہے ، سامنے ہے۔

اجمل خٹک کثر

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی کا کچھ ہو گا بھی یا پھر ڈرامہ بازی

ایسی خوفناک بارش جس نے سب کچھ اُلٹ پلٹ دیا۔ کراچی پہ کئی بپتائیں بیتیں لیکن قدرت کے ہاتھوں ایسی تباہی کب کراچی والوں نے دیکھی تھی۔ سیلابوں میں دیہات کے دیہات بہہ جاتے تھے اور شہری، امرا موسم کے مزے اُڑاتے۔ لیکن اس بار طوفانی بارشوں سے کچی آبادیاں تو ڈوبنی ہی تھیں لیکن ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں کی بھی خیر نہ رہی۔ اسی لیے اسے قومی ایمرجنسی قرار دیا گیا۔ کراچی میں عمارتوں اور ناجائز قبضوں کے جنگلوں اور شہری سہولیات اور ماحولیات کی بربادی اور تگڑے اسٹیک ہولڈرز کی قبضہ گیری اور باہمی ٹکرائو کے ہاتھوں جو ہوا اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی بڑے میگا شہروں کا بندوبست سنبھالنا دو بھر ہو چلا ہے۔ لیکن جدید سائنس و ٹیکنالوجی، اچھی منصوبہ بندی اور موثر گورننس سے درپیش مسائل کا حل نکالا جا رہا ہے اور لوگ بھی اب بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں اور قصبات کا رُخ کر رہے ہیں۔

لیکن کراچی کا معاملہ ہی علیحدہ ہے۔ جتنے یہاں گو نا گوں نسلیاتی گروہ ہیں (جو اسے کاسموپولیٹن بناتے ہیں)، اُتنے ہی پیچیدہ مسائل۔ کبھی کراچی ایک مچھیروں، دستکاروں اور تاجروں کی خاموش بستی تھا اور اس کے آبادی 1947 میں چار لاکھ کے لگ بھگ تھی اور یہاں انگریزوں نے اپنی فوجی و تجارتی آئوٹ پوسٹ بنائی۔ مہاجروں کی آمد کے بعد اس شہر کی آبادی چھلانگیں مارتی پھیلتی چلی گئی۔ جو بنیادی انفراسٹرکچر برطانوی نوآبادکاروں نے تعمیر کیا تھا، چند دہائیوں میں یہ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ تلے دب کر بے بس ہو گیا۔ اب نوبت یہ ہے کہ آبادی کے گھنے پن کے حساب سے کراچی میں فی مربع میل 63,000 نفوس ہیں اور ہر سال باہر سے 45,000 افراد کراچی میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔ مہاجروں (48.52 فیصد) کی آمد کے بعد سے کراچی کا نسلیاتی جغرافیہ اتنا بدلا کہ یہ منی پاکستان کہلایا جہاں سندھیوں (7.22فیصد)، پشتونوں (11.42فیصد)، بلوچوں (4.34فیصد)، پنجابیوں (13.94فیصد)، سرائیکیوں (2.12فیصد)، گجراتیوں کے علاوہ بنگلہ دیشی، بہاری، افغانی، روہنگیاز، برمیز، یوغور اور جانے کون کون اور کہاں کے لوگ آباد ہو گئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر معاشی ہجرت ہے جو لوگوں کو بڑے شہروں کی جانب کھینچتی ہے۔

پاکستان بننے پر کراچی دارالحکومت بنا اور ترقی کا سارا زور بھی وہیں رہا جس کا زیادہ تر فیض کراچی والوں ہی کو ملا۔ جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ بڑا دھچکا تھا۔ جس کا نتیجہ ایوب خان کے خلاف زبردست مزاحمت کی صورت میں نظر آیا۔ یہ کراچی والوں کی آمریت کے خلاف پہلی اور آخری مزاحمت تھی۔ پھر 1973 کا آئین بنا اور صوبائی خودمختاری ملی اور سندھ کو وَن یونٹ کے خاتمے کے بعد اُس کی تاریخی شناخت واپس ملی۔ بعد ازاں سندھی زبان کے سرکاری اعتراف پر ہم نے ’’اُردو کا جنازہ ہے‘‘ کی رقعت آمیز آوازیں سُنیں۔ اور پھر ضیا الحق کی بھٹو دشمنی میں مہاجر کارڈ کو متحرک ہوتے دیکھا۔ نسلیاتی و لسانی تقسیم اور نفرت انگیزی نے لطیف بھٹائی کی سندھڑی کو خوفناک لسانی فسادات کے شعلوں میں لپٹتے دیکھا پھر الطاف حسین کے کلٹ اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے ہاتھوں کراچی دہائیوں تک یرغمال بنائے رکھا گیا۔ دہشت گردی، بھتہ خوری کے پھیلائو اور بوریوں میں لاشوں کے ڈھیر لگتے دیکھے۔ جو میونسپل ادارے بنے بھی تو وہ اسی مافیا اور دیگر مافیائوں کے لے پالک ہوتے۔

اسے شہری آبادی اور دیہی جاگیرداروں کے جھگڑے کا نام بھی دیا گیا اور اندرونِ سندھ اور شہری علاقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ اس خانہ جنگی میں مافیاز پیدا ہوئیں اور وہ بھتہ خوری، پانی کے ٹینکر سے چائنا کٹنگ اور بڑے پیمانے پر زمینوں کے ہتھیانے تک ہر طرح کے سماج دشمن دھندوں میں شامل ہو گئیں۔ اس سب کا خمیازہ سب سے زیادہ کراچی والوں نے بھگتا اور جو تباہی ہوئی اس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں۔ شکر ہے کہ افواجِ پاکستان نے کراچی میں دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا اور امن بحال ہوا۔ فسطائیت کی کمر ٹوٹی اور ماحول کھلا ہوا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دیہی سندھ اور شہری سندھ کے مینڈیٹ متصادم ہیں اور درجن بھر کرپٹ مقامی ادارے کراچی کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔ کہاں کس کی عملداری شروع ہوتی ہے اور کہاں کس کی ختم، بس اسی پہ سیاسی مناظرے جاری ہیں اور کراچی کی انتظامی حالت اور شہری سہولیات ایک مستقل سوہانِ روح بن کے رہ گئے ہیں۔

سندھ حکومت کی بنیادی ترجیح اس کا دیہی حلقۂ انتخاب ہے اور کراچی سمیت دوسرے شہروں میں اس کی کارکردگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف شہری علاقوں کے نمائندے بھی کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کے بے مقصد مجادلے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان اِک نئے منصوبے کے ساتھ آج بوقتِ تحریر کراچی جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے کی طرح وہ صوبائی حکومت سے کوئی مشاورت کر رہے ہیں اور نہ اُسے آن بورڈ لے رہے ہیں۔ خبر ہے کہ کورونا وائرس کے کنٹرول کے ادارے کی طرح کا کوئی ادارہ بنایا جائے گا جس کی صدارت کریں گے تو وزیرِ اعلیٰ سندھ، لیکن کنٹرول اُنہی کا ہو گا جنہوں نے کورونا کو روکنے کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم چلایا۔ شہری سیلاب کے دوران فوج کو سول انتظامیہ کی امداد کے لیے بلانا ایک مستحسن قدم تھا۔ ایمرجنسی کی حالت چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔

بہتر ہو گا کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے آئینی راستہ اختیار کیا جائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے دائرے میں صوبائی حاکمیت قائم رہے اور مرکز صوبے کی ضروری مدد کرے۔ صوبہ سندھ کو بھی اور دیگر صوبوں کو بھی ایک موثر مقامی حکومتوں کا نظام لانا ہو گا اور اختیارات و ذرائع کو مقامی کونسل اور وارڈ تک منتقل کرنا ہو گا۔ البتہ اس امر کا خیال رکھنا ہو گا کہ کوئی ایک سیاسی یا نسلیاتی گروہ دوسروں کو نکال باہر نہ کرے۔ رہا ماسٹر پلان تو اس کو وقت درکار ہو گا اور اس پر کام کی ضرورت ہے۔ ایک ہفتے میں ماسٹر پلان تیار نہیں ہوتے، انہیں وقت لگتا ہے اور نہ ہی ہفتوں مہینوں میں بڑے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور بڑے مسئلوں کا بتدریج حل نکالا جائے۔ پانی کی فراہمی، نکاسیِ آب، غلاظت کی صفائی، بجلی کی سپلائی اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم کی پہل قدمی باعثِ انتشار بنے اور کراچی کے لوگ پھر منہ دیکھتے رہ جائیں اور ایک اور طوفانی بارش کا بے بسی سے انتظار کریں۔ کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور مستقبل میں کراچی سمیت سندھ کے ساحلی علاقوں کو سمندر میں غرق ہونے سے بچایا جائے۔ کراچی والو! تمہارا اللہ ہی حامی و ناصر ہے۔

امتیاز عالم

بشکریہ روزنامہ جنگ

روشنیوں کے شہر کا المیہ

روشنیوں کا شہر کراچی عرصہ دراز سے بہت سی منفی خبروں کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ کبھی قتل و غارت، لوٹ مار، کرپشن، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ، ہیٹ ویو اور اب جو نئی مصیبت کراچی کے باسیوں پر نازل ہوئی ہے وہ مون سون کی طوفانی بارشیں ہیں، جنہوں نے پورے شہر میں تباہی مچا دی ہے۔ کراچی کا کوئی ایسا کونہ نہیں بچا جہاں پانی کی یلغار نہ ہو، جگہ جگہ پانی نظر آرہا ہے اور وہ علاقے جو بڑے پوش اور ترقی یافتہ سمجھے جاتے تھے، وہ بھی سیلابی ریلے کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ آج کراچی کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے، کراچی کے موجودہ باسیوں کو شاید اپنے شہر کی تابناک تاریخ کا اتنا علم نہ ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے والا سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک ہندو مئیر تھا جس نے انیس سو دس کی دہائی میں ایک پاور پلانٹ لگایا تھا۔ ہر چند رائے کے لگائے گئے پاور پلانٹ کی بدولت کراچی روشنیوں سے جگمگا اٹھا تھا اور پورے برصغیر سے لوگ کراچی کی روشنیاں دیکھنے آیا کرتے تھے، کراچی شہر کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے ہر چند رائے نے طویل سوچ و بچار اور مشاورت کے بعد ماسٹر پلان تیار کیا، اس پلان کے تحت مون سون بارشوں کے بعد تباہی کا باعث بننے والے دریائے لیاری پر بند باندھ کر رُخ موڑا گیا اور زرخیز زمین کا کارآمد استعمال یقینی بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ہر چند کو بابائے جدید کراچی (فادر آف ماڈرن کراچی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسی طرح کراچی میونسلپلٹی کا ایک اور نام جمشید مہتہ کا ہے جسے کراچی کے پہلے منتخب میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پارسی تھے، وہ انسانیت کا درد رکھتے تھے۔ اس نے مچھیروں کی قدیمی بستی کو دنیا کے ترقی یافتہ اور صاف ستھرے شہر میں ڈھالنے میں نمایاں کردار ادا کیا، بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے کی بناء پر کاروباری سرگرمیوں کا فروغ جمشید مہتہ کی اولین ترجیحات میں شامل تھا، جمشید مہتہ قائداعظم کے پیش کردہ چودہ نکات کے تحت سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کے مطالبے کے پرزور حامی تھے، انہوں نے قیام پاکستان کے موقع پر ہندوستان بھر سے آنے والے مہاجرین کی کراچی میں آبادکاری کیلئے جامع ماسٹرپلان تیار کیا، ان خدمات کی بدولت جمشید مہتہ کو جدید کراچی کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی کی تاریخ میں اور بھی ایسی بے شمارانسان دوست شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنے آہنی عزم کی بدولت کراچی کو ایک غریب پرور شہر میں ڈھال لیا جسکے دروازے ہر مذہب ، ہر قومیت اور زبان بولنے والوں کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، انہوں نے کراچی کو ایک ایسے بے مثال شہر کی شہرت عطا کی جہاں کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا کیونکہ اس کو کوئی نہ کوئی کام، روزگار کراچی میں مل جاتا ہے۔ 

افسوس کا مقام ہے کہ آج کراچی ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہے، ہر نیا ایشو پچھلے مسئلے سے زیادہ تباہ کُن ثابت ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے عوام کو بے یار و مددگار زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر یہ سب پریشانیاں کراچی کے باسیوں کا ہی مقدر کیوں بنتی جارہی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ لوگ ایسی غلطیاں کرتے ہیں جس کا خمیازہ اس کی آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے، کراچی کے باسیوں نے اپنے ان محسنوں کو بھلا دیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں کراچی کو بنانے کیلئے وقف کر دی تھیں، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کراچی کسی ایک قومیت کا یا کسی ایک سیاسی جماعت کا شہر نہیں ہے بلکہ کراچی ہم سب کا شہر ہے ، کراچی پورے پاکستان کی پہچان ہے ، کراچی ملک کا معاشی حب ہے، کراچی قائد اعظم کا شہر ہے۔ کراچی سے وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی، ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن آج کراچی اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے ۔

اگر گزشتہ صدی میں انگریز سامراجی حکومت میں ہر چند رائے اور جمشید وانجی جیسے میئر اپنے آہنی عزم کی بدولت کراچی کو روشنیوں کے شہر میں ڈھال سکتے ہیں ، جبکہ اس وقت ان کے پاس وسائل کی بھی کمی تھی ،ٹیکنالوجی بھی اتنی جدید نہیں تھی اور ہم انگریزوں کے بھی غلام تھے، اس زمانے میں اگر وہ وژنری لوگ کراچی کے مسائل سمجھ سکتے تھے اور کراچی کو ایک بے مثال رول ماڈل شہر بنا سکتے تھے تو آج آخر ہم لوگوں میں کس چیز کی کمی ہے؟آج ہم لوگ کیوں نہیں آپس میں مل بیٹھتے؟ ہم کب تک الزام تراشی اور اناپسندی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟ اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ہمیں کراچی کا خیال کرنا ہو گا۔ کراچی میں بسنے والوں کو اور کراچی کی لیڈرشپ کو، چاہے وہ صوبائی قیادت ہو، لوکل گورنمنٹ ہو یاوفاقی حکومت ہو ، سب کو مل کر کراچی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ایک مربوط اور مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ 

کراچی کا ایک اورسب سے بڑا مسئلہ قبضہ مافیا ہے ، جس کو جو جگہ نظر آتی ہے وہ قبضہ کئے جا رہا ہے ، جہاں سے پہلے دریا گزرتا تھا جہاں ندیاں نالے تھے، ہم نے وہاں بھی نئی آبادیاں اور بستیاں بسا لی ہیں، آج اگرسیلابی پانی کا بہاؤ دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے پانی پھر سے اپنے اسی قدرتی روٹ پر بہہ کر تباہی مچا رہا ہے جو کہ ماضی میں ماسٹر پلان کا حصہ تھا ۔ آج ہمیں کراچی کو بنانے اور سنوارنے والوں کا احترام یقینی بنانا ہو گا، ہمیں ان کے وژن کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر سے کراچی کی بہتری کا بیڑہ اٹھانا چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی وہ قومیں جو اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں اور اپنے وژن سے بھٹک جاتی ہیں، وہ بہت جلد قدرت کے عتاب کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی کی درد انگیز کتھا

کراچی میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی طوفانی بارشوں نے ملک کے میٹروپولیٹن کا جو ’’شہر آشوب‘‘ پیش کیا ہے اس کی درد انگیزی تاریخی ہے اور پہلی بار اسٹیک ہولڈرز نے محسوس کیا ہے کہ اس شہر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ غیر ملکی طاقتوں کی کارستانی نہیں بلکہ اس بربادی میں اپنوں کا ہاتھ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ بارشوں نے لاکھوں شہریوں کے گھر تباہ کیے، پانی کے سیلابی ریلے غریب مکینوں کا سب کچھ بہا کر لے گئے، سرجانی، اورنگی، کورنگی، نیو کراچی، ناظم آبا د سمیت شہر کی بیشتر کچی آبادیاں، مضافاتی اور نشیبی علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہوا ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، برساتی نالے چوک ہو گئے ہیں، نالوں پر تعمیرات کھڑی ہیں، کس نے اجازت دی؟ کچرے کے ڈھیر جو ٹھکانے نہ لگ سکے وہ بارش کے تیز سیلابی ریلوں میں دوبارہ شامل ہو گئے۔

کراچی ان دنوں آفت زدہ شہر کہلانے کا مستحق ہے، رین ایمرجنسی ایک چھوٹا سا لفظ ہے، انتظامیہ کے کثیر جہتی انتظامات اور نالوں کی صفائی کے جتنے دعوے تھے وہ موسلا دھار بارشوں میں بہہ گئے، کہیں بھی کراچی کا فرسودہ، نام نہاد انفرااسٹرکچر اور اس کی باقیات کا کوئی نام و نشان نہیں، اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشیں کراچی کی تباہی، بربادی اور شہریوں کی لاوارثی، بے بسی اور مجبوریوں پر فریاد کناں ہیں، کبھی بھی ایسی صورتحال پیش نہیں آئی جب نکاسی آب نے بارش کو اتنا بڑا عذاب بنا دیا ہو کہ سارا سسٹم بیٹھ گیا۔ کراچی کا بڑا حصہ بارش کے پانی میں ڈوب گیا۔ بلیم گیم ابھی بھی جاری ہے مگر اتنا تو ہوا کہ اسٹیک ہولڈرز زود پشیمانی کے ساتھ شہر کی بھلائی، بحالی اور بارش کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اجتماعی سوچ کا مظاہرہ کرنے پر فکرمند دکھائی دینے لگے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکمرانی کا کھوکھلاپن، بے نام سی گڈ گورننس، سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی کے باعث کوئی حکومت شہر کو اون کرنے کا کلچر اور تہذیبی رمق پیدا نہیں کر سکی، گزشتہ چند روز میں سیاستدانوں، بلدیاتی اداروں کے سربراہوں، صوبائی حکومت اور مقامی حکومت کے حکام میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ کراچی حکومتوں کے تجاہل عارفانہ، مجرمانہ غفلت اور شہریوں کی محرومیوں کے دوش بدوش مگر ترقی کے ایک جامع ماسٹر پلان کے بغیر ہی چل رہا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے 10 ارب ڈالر (17 کھرب روپے) درکار ہیں جو نہ سندھ کے پاس ہیں اور نہ ہی وفاق کے پاس ہیں، منصوبہ بندی کے بغیر بڑی تعمیرات کراچی کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کے ایم سی کے پاس وسائل کی کمی ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ کراچی سے کچرا اٹھانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے، حکومت سندھ کے مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی کو توڑنے کی سازش نہیں ہو رہی، جب تک کراچی کا ایک لیڈر، ایک ایڈمنسٹریٹر نہیں ہو گا یہ بلیم گیم چلتا رہے گا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ فوری طور پر بلدیاتی الیکشن ہونے چاہئیں، کراچی کی تقسیم در تقسیم کرنا صحیح نہیں۔ سابق میئر کراچی مصطفی کمال نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو معلومات صحیح فراہم نہیں کی گئیں۔ اختیارات اور وسائل وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ کر پارک ہو گئے، تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اے این پی کے رہنما شاہی سید نے کہا کہ کراچی کو خصوصی پیکیج اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، اٹھارہویں ترمیم کی خوبیاں عوام تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ سب کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے، اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے تو چاہے سندھ حکومت ہو یا وفاقی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مسائل پر گفتگو کا جو استحقاق میئر کے پاس ہے اتنا ہی کراچی کے عوام ان سے حقائق معلوم کرنے کا حق رکھتے ہیں، میئر کراچی کو اپنے دفاع میں کئی سوالات کے جواب دینا پڑے، وہ اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرتے رہے، مگر ان سے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا یہ شہر چند بنیادی سوالات کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان سوالات کے تناظر میں ہی کراچی کی انفرا اسٹرکچرل بربادی کی اصل کہانی سامنے آسکتی ہے۔ میئر نے میڈیا کو بتایا کہ جب وہ بلدیہ کراچی یا مقامی حکومت کی سربراہی کے لیے ایکٹیو ہوئے، تو انھوں نے کے ایم سی کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی اور کہا کہ سب سے پہلے اس کی عمارت کی کایا پلٹی مگر میئر کے ان اقدامات کا عوام سے کچھ تعلق نہ تھا، سب سے بڑا عوامی سوال یہ تھا کہ بحیثیت میئر انھوں نے فراہمی ونکاسی آب کے شفاف اور فالٹ فری سسٹم کے لیے کیا اقدامات کیے، اس شہر کو بارشوں نے بہت نقصان پہنچایا مگر بنیادی سوال نکاسی آب کا ہی ہے، نالوں کی صفائی کتنی ہوئی، یہ تو این ڈی ایم اے کی برکت سے کچھ نالے صاف ہوئے مگر شہریوں کے ذہنوں میں کراچی کے لیے ایک مربوط، سائنٹیفک، مضبوط اور قابل عمل نکاسی و فراہمی کے نظام کی موجودگی تھی۔

کچرے کو ٹھکانے لگانے میں کتنی کامیابی ہوئی، کے ایم سی کے ملازمین، کنڈی مینوں اور خاکروبوں کے لیے صفائی کی کٹس کی فراہمی کا معیار کیسا تھا، کئی ملازمین بند گٹروں کی صفائی کے لیے نیچے اترے تو گیس بھر جانے کیے باعث ان کی اموات ہوئیں، ان کی داد رسی اور حفاظت کا انتظام کتنا محفوظ اور دیرپا تھا، کہا جاتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اور میونسپل شعبوں میں گھوسٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد تھی ان کی تنخواہوں پر میڈیا میں خبریں آئیں، سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بھی گھوسٹ ملازمین اور ان کی تنخواہوں کا سوال اٹھایا، میئر سے عوام اس لیے بھی حقائق معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ان کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے۔ وہ ایک معتبر حوالہ رکھتے ہیں، جب لندن نشین بانی تحریک کا کراچی میں طوطی بولتا تھا تو وسیم اختر متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما تھے، کراچی کی سیاست اور مقامی حکومت اور محکمہ داخلہ کے مشیر کی حیثیت میں وہ حقائق سے آشنا شخص شمار کیے جاتے ہیں، کراچی کے شہری جاننا چاہتے ہیں اور ایک خوش گمانی وسیم اختر کے ساتھ ابھی بھی سفر کرتی ہے، میئر بابائے شہر ہوتا ہے، اس کو کس نے بے اختیار کیا اور ان کے بقول کراچی کا صرف 10 فیصد حصہ ان کے پاس تھا جب کہ 70 فیصد وفاق یا دیگر بااختیار اداروں کے تصرف میں تھا تو وہ اپنے زیرانتظام دس فی صد کے ترقیاتی انڈیکس سے عوام کو کیا فیض پہنچاتے رہے۔

میئر پر سب سے بڑی جرح یہ کی جاسکتی ہے کہ انھیں جتنے فنڈز ملے کے ایم سی کا جو بجٹ تھا کیا وہ شہر کی مجموعی ترقی اور اس کی بے مثال خوبصورتی میں استعمال ہوا، یہ بھی ملین ڈالر سوال ہے کہ ایم کیو ایم نے تین عشروں تک کراچی میں بلا شرکت غیرے حکمرانی کی، اس پورے عرصے میں تو ایک عظیم ’’رومن شہر‘‘ کی بنیاد ڈالی جاسکتی تھی، متحدہ تو اس طویل عرصے میں کراچی کو ملک کے دیگر شہروں کے لیے مثال بنا سکتی تھی۔ یہ قدرت کی طرف سے متحدہ کو ایک زبردست چانس کا ملنا تھا، پھر کیا ہوا کہ شہر آج تک کی مسلسل بارشوں سے موئن جو دڑو بن گیا ہے؟ کوئی جواز اور عذر ہے کسی کے پاس۔ میئر کراچی سے عوام کی خوش گمانی لائق تحسین ہے، شہر کے متعدد اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ بیٹھ کر سندھ حکومت سے گلے شکوے کرتے ہوئے ایک ’’حل‘‘ کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، اچھی بات ہے، مگر حقائق تلخ ہیں، پی پی پی ، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، اے این پی اور دیگر سماجی اور سیاسی گروپس کو کراچی کے بحران اور تباہی سے نجات کا کوئی ایسا تیر بہ ہدف نسخہ تلاش کرنا ہے جو شہر کو بیوارثی کے احساس اور غیر انسانی صورتحال سے نکالے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں بے ہنگم تعمیرات، تجاوزات، قبضہ مافیا اور سرکاری زمینیں ہتھیانے کے ناسور سے بھی نجات دلائی جائے، یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں سرکاری زمینیں کوڑیوں کے مول بیچی جاتی رہی ہیں، مگر اب وقت آگیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ ان سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ اور خرید وفروخت پر پابندی لگانے کے لیے قانونی پیش رفت کریں۔ کسی بھی شخصیت یا نجی ادارے کو سرکاری زمین کی لیز دی جائے اور نہ ہی الاٹمنٹ دی جائے، وزیراعلیٰ کو سرکاری زمین الاٹ کرنے کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا جائے کیونکہ یہی کرپشن کے زمیں دوز راستے ہیں، بیوروکریسی، اسمگلرز، کرمنلز، دولتمند خاندان، مفاد پرست عناصر، لینڈ مافیا، بلڈرز پولیس کی ملی بھگت سے سرکاری زمینوں کو مال مفت دل بے رحم کی طرح ہڑپ کر لیتے ہیں، سرکار خود اپنی زمین کے جائز استعمال اور اس کی افادیت کا پیمانہ اور معیار مقرر کرے جس سے چائنا کٹنگ اور قبضہ گروپوں کی چیرہ دستی کو روکا جاسکے گا۔

کراچی کی دردناک صورتحال وفاق، سندھ حکومت، بلدیہ، میئر کراچی اور وفاق کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، سیاست دانوں، اربن ماہرین اور سول سوسائٹی کے لیے بارشیں چشم کشا ہیں، عوام سسٹم کی سنگدلی سے بیزار ہیں، ان کی زندگیاں لٹ چکیں، بچے، بوڑھے، جوان، خواتین سب ایک غیر مہذب یعنی غیر انسانی ماحول کے قیدی ہیں، انھیں کورونا نے اذیتوں سے دوچار کیا، ریاست و حکومت سے عوام زندگی کی بھیک نہیں اکیسویں صدی کی جدید سہولتیں مانگتے ہیں۔ ایسی حکومت سامنے آنی چاہیے جو کراچی کے عوام سے کہے مانگ کیا چاہیے؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

شہرِ قائد حکومتی توجہ کا طالب ہے

موجودہ حکومت کے آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں سے نہ صرف رقم نکلوائیں گے بلکہ انہیں کڑی سزا بھی دیں گے، ملکی دولت لوٹنے کے حوالے سے نیب میں بھی کئی اہم مقدمات زیر سماعت ہیں مگر تاحال ان سے ابھی تک کوئی بھی رقم ملکی خزانے میں واپس نہیں آسکی ، ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کے لئے حکومت فوری طور پر ایمنسٹی کا اعلان کرے، جس میں سیاست دانوں، بیورو کریٹس، صنعت کاروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت حکومت کو واپس کر دیں ، ان کو کسی قسم کی سزا نہیں ملے گی، ملک کے کئی ادارے گروی رکھ دئیے گئے ہیں، ایمنسٹی کے فیصلے سے ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ 

پاکستان بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جبکہ معاشی طور پر صورت حال بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے، مستحکم ادارے بھی ہچکولے کھا رہے ہیں، نیب کو انتقامی انداز میں استعمال کرنے سے تاجر برادری بھی پریشانی کا شکار ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، ان حالات میں پاکستان کو ایسی ایمنسٹی کی ضرورت ہے جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکے ۔ ایمنسٹی کے اعلان سے سیاست دانوں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا، اس وقت پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز، پورٹ قاسم، کے پی ٹی جیسے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں، پی آئی اے ایک زمانے میں دنیا کی ٹاپ ٹین ایئر لائن میں شامل تھی مگر اب اس میں سفر کرتے ہوئے مسافر خوف زدہ ہوتے ہیں، پاکستان ریلوے تباہ ہو چکی ہے، دوسری جانب ڈالرز اور سونے کی قیمتوں میں اضافے سےعوام پریشان ہیں، پیٹرول، گیس کی قیمت میں اضافے سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے، مہنگائی اور بے روز گاری عروج پر ہے، اس صورت حال میں مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ 

کراچی ملک کا معاشی حب ہے جہاں چاروں صوبوں کے لوگ روزگار حاصل کر رہے ہیں، حکومت اس شہر کو پاکستان کا معاشی دارالحکومت قرار دے کر اس کی ترقی اور اس کے انفر اسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس شہر کے حوالے سے اہم ترین اقدامات اور فیصلے کرنا ہوں گے ، ورنہ اس شہر کی تباہی سے ملکی معاشی صورت حال بھی تباہ ہو جائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی کی صورت حال پر جو ریمارکس دئیے ہیں اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ سندھ حکومت کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، انہوں نے بلدیاتی نمائندوں کو ان کی نااہلی پر تنقید کا نشانہ بنایا، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب تک کراچی کو اہمیت نہیں دی جائے گی ملک کی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی ہے بدقسمتی سے کراچی کو پچھلے 12 سال سے سندھ کی حکومت نے کوئی اہمیت نہیں دی اس کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا۔ 

گیس کی بندش اس شہر میں معمول بن گئی ہے جس کی وجہ سے سی این جی کا مستحکم کاروباری شعبہ بھی ہچکولے کھانے لگا ہے اس کے مالکان کے لیے ملازمین کو تنخواہ دینا مشکل ہوتا جارہا ہے جبکہ سی این جی وہ ایندھن ہے جس سے ہم اپنے کاروباری معاملات کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں کراچی جیسے شہر کے بارے میں اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہو گی کہ اس کے نالے کچروں کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کی صفائی کے لیے بلدیہ کراچی اور سندھ حکومت ناکام ہو گئی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کو ان نالوں کی صفائی کے لیے این ڈی ایم اے کو ذمہ داری دینا پڑی جس کو سندھ حکومت نے اپنی نااہلی تصور کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ کراچی کے نالوں کی صفائی کی ذمہ داری این ڈی ایم اے کے بجائے سندھ حکومت کو دی جائے جو سپریم کورٹ نے مسترد کر دی اس موقع پہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ دو نالوں کی صفائی کی تصاویر دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کراچی کو صاف کر دیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے کراچی کے عوام کو امید ہے کہ وہ کراچی کی از سر نو تعمیر کے لئے پاکستان آرمی کے کور آف انجینئر کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے تحت کراچی کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے لئے احکامات جاری کریں گے تاکہ سسکتا اور بلکتا ملک کا یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔

سیّد ضیاء عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی : روشنی کے شہر سے دریا تک

حالیہ بارشوں میں کراچی کو دریا بنتے دیکھ کر بڑے بڑے ادارے کراچی کی مدد کو دوڑ پڑے۔ لیکن ان سے بھی صورتحال کنٹرول نہ ہو سکی۔ جس کی وجہ ان کی نااہلی نہیں بلکہ پانچ دہائیوں پر مشتمل پرانے مسائل ہیں جن کی جڑ تک پہنچے بغیر ان مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ صرف چند بڑے ندی نالوں کی صفائی سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہاں تو گلی گلی نکڑ نکڑ پر نکاسی آب اور سیورج سسٹم میں رکاوٹ ڈلی ہوئی ہے۔ یہ کس قسم کی ہیں اور انہیں کیسے ختم کیا جاسکتا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ اس پر کام ضرور ہونا چاہیئے ۔ ایک اربن ڈیویلپر کی بقول سب سے پہلے تمام نالوں کو کھولا جائے یعنی جن کو اوپر سے پکا کر کے کار پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے یا گرین بیلٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں دونوں طرف چھوٹی سی دیوار بنا کر انہیں کھلا رکھا جائے۔ دوسرے کوئی ایسی نگرانی کا نظام لایا جائے کہ ان ندی نالوں میں کچرا پھینکنے والوں کی پکڑ ہو سکے ۔ جب کچھ لوگوں کو جرمانہ ہو گا یا سزا ملے گی تو وہ اس قسم کی حرکات سے باز آئیں گے۔

دوسری طرف انتظامیہ چاہے شہری ہو، صوبائی ہو، دفاعی ہو یا نجی ۔ کچرے کے ڈرمز ہر گلی اور محلے میں رکھ دے۔ اور کم از کم دن میں دو دفعہ ڈرمز کو خالی کروایا جائے اور ڈرمز کے باہر کچرا پھینکنے والوں اور ڈرمز چوری کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ پاکستان میں پلاسٹک کی کثرت ہے۔ تو کیا ڈرمز لوہے کے بجائے پلاسٹک کے بنا کر نہیں رکھے جا سکتے؟ ان پر آنے والے اخراجات ہر گلی کے مکین سے جمع کر کے پورے نہیں کئے جاسکتے؟ یونین کونسل کے افراد کے لئے کوئی مشکل کام نہیں وہ یہ رقم اکھٹا کر سکتی ہے۔ دوسرے وہ حضرات جو شہرت کے لئے ایسے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تو یقینا وہ بھی شہرت کے نام پر کچرے کے ڈرمز فراہم کر دیں گے۔ لیکن سب سے اہم مسئلہ ان ڈرمز کو بروقت خالی کروانا ہے۔ جو کے صرف اور صرف انتظامیہ ہی کر سکتی ہے۔ چاہے وہ کوئی سی بھی ہو۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف جو بڑے نالوں کی صفائی کی گئی ہے۔ اس سے مسئلہ کم تو ہو گا ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس مسئلہ کی اصل وجہ ان ناولوں پر قبضہ ہے۔ 

شروع میں نالے چوڑے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے اندر کی طرف جائیں یہ تنگ ہوتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ ان پر رہائشی کالونیاں آباد ہیں ۔ اور انھیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ جن کے یہ باقاعدہ ووٹرز ہوتے ہیں۔ ندی نالوں پہ قابض افراد بعد میں سیاسی جماعتوں کے ووٹرز بن کے ان سے زمین کے پکے کاغذات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جس کو پورا کرنے کے لئے لیے یہ سیاسی جماعتیں ان کو اپنے پکے ووٹرز تصور کرتے ہوئے۔ ان کے لئے آواز بلند کرتی ہیں۔ یہی وہ ووٹرز ہوتے ہیں جو نعرے لگانے، کسی لیڈر کا استقبال کرنے اور جلسے جلوس کروانے میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کراچی کے رہنے والوں کے بارے میں رائے دی جاتی ہے ہے کہ یہاں پکے گھروں کے رہنے والے ووٹ نہیں دیتے اس لئے کچے علاقے خاص طور سے یہاں آباد کروائے جاتے ہیں ۔ اس کا آغاز ایوب خان کے دور میں ہوا تھا اور سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جہاں خالی اراضی دیکھی سب سے پہلے مسجد قائم کی پھر اس کے ساتھ ساتھ گھر بننا شروع ۔ 

مسجد کی تعمیر کو ناجائز کہنے کی کوئی ہمت نہیں کرئے گا ورنہ کفر کا فتوی جاری ہو جائے گا۔ لہذا مشکل آسان بناتے جائیے دو کے بعد تین پھر چار پانچ منزلہ مکان بغیر بنیادوں کے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یوں مختلف علاقوں میں یہ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بنک بنا رہی ہیں۔ اسی لیے لیے کراچی میں قبضہ مافیا مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ اور قبضہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ سرکاری زمین ہو یا عوامی تفریح کے لیے ۔ ہر زمیں پر قبضہ کیا جاتا ہے ہے اور کسی قسم کی کوئی آواز نہیں ہوتی اور جب شدید بارشوں کے موسم میں میں یہ ندی نالے ابل پڑتے ہیں۔ اور ان قابضین کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں تو یہی سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹرز کے لئے آواز اٹھاتی ہیں۔ اور ان کی غربت کا رونا روتی ہے اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ غلط جگہہ ناجائز قبضہ کر کے ان لوگوں کا نقصان کیا جو اپنی محنت کی کمائی سے اپنے گھر بناتے ہیں اور پابندی سے ٹیکس بھی دیتے ہیں ۔لیکن افسوس ان کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ 

سید منہاج الرب

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی پر بھی توجہ فرمائیے

کراچی کی سندھ سے علیحدگی یا سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی بات پر پیپلز پارٹی سخت برہم ہو جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سندھ دھرتی ہماری ماں ہے جو ہماری ماں کے ٹکڑے کرنے کی بات کرے گا ہم سب اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ وہ گورنر راج کو سندھ پر وفاق کے قبضے سے تعبیر کرتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سندھ کے ٹکڑے نہیں ہو سکتے تو پھر کراچی کو کیوں سات ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس تقسیم کے ذریعے کراچی جیسے تین کروڑ کی آبادی والے شہر کے گمبھیر انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پتا چلا کہ انتظامی بنیاد پر علاقوں کی تقسیم کا عمل وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی بات ہے یا گورنر راج کے نفاذ کا معاملہ ہے یہ شوشوں کی حد تک تو ضرور موجود ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ایک زمانے سے کراچی صوبے کی بات کرتی آرہی ہے مگر وہ نہ ماضی میں اس میں سنجیدہ تھی اور نہ آج سنجیدہ نظر آتی ہے۔ وفاق کی جانب سے گاہے بگاہے سندھ میں گورنر راج اور نئے صوبے کی بات ضرور کی جاتی ہے مگر وہ بھی محض شوشے کی حد تک ہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی سندھ میں بہتر کارکردگی ہوتی تو کسی کو اس کے سامنے اس کے ناپسندیدہ ایشوز کو اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو کراچی صوبے یا گورنر راج کی بات کر رہی ہیں وہ ان نام نہاد ایشوز کے ذریعے اپنی سیاست چمکا رہی ہیں ساتھ ہی پیپلز پارٹی ان ایشوز پر شدید ردعمل ظاہر کر کے اپنا ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہے۔ ان کے مطابق مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی عوامی بھلائی کا ایجنڈا نہیں ہے گوکہ وہ تمام ہی اس شہر کے اسٹیک ہولڈرز ہیں مگر یہاں کے عوامی مسائل کو حل کرنے میں قطعی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کے تمام ہی شہروں کی حالت زار قابل غور ہے۔ کراچی جیسے ملک کے معاشی انجن کے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے صرف عوام ہی ناراض نہیں ہیں اس مسئلے نے سپریم کورٹ کو بھی ناراض کر دیا ہے۔

گزشتہ دنوں میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ سندھ کی سپریم کورٹ میں جو سبکی ہوئی ہے اس سے انھیں ضرور کچھ سبق لینا چاہیے اور خود کو عوامی مسائل کے حل کے لیے وقف کر دینا چاہیے بہانے بازی کا اب وقت نہیں رہا ہے اب میئر کراچی کی میئر شپ کی مدت ختم ہو رہی ہے انھیں اور ان کی پارٹی کو کیا کراچی کے عوام اب دوبارہ یہ موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ ایسا نظر نہیں آتا اس لیے کہ ان کی میئر شپ کے پورے دور میں کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں سخت پریشان رہے ہیں مگر وہ اپنے اختیارات میں کمی کا رونا رو کر اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے وہ بھی مسائل کے حل کے سلسلے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اصل مسئلہ کراچی کے بلدیاتی نظام میں پیپلزپارٹی کی مداخلت کا ہے۔ اس نے میئر کراچی کو تمام بلدیاتی ادارے اس کے حوالے کرنے کے بجائے کچھ اہم اور کچھ لوگوں کے مطابق بھاری آمدن والے شعبے اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔

اس طرح میئر کراچی کو یہ جواز عطا کر دیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات میں کمی کا رونا یا واویلا کر کے اپنی پھوہڑ کارکردگی پر پردہ ڈال سکے۔ بلدیاتی نظام کی اس تیتر بٹیر تقسیم سے عوام کے بنیادی مسائل کے حل میں مسلسل رخنہ پڑ رہا ہے۔ اس وقت کراچی کے اصل مسائل فراہمی و نکاسی آب اور کچرے کی صفائی ہیں لیکن اور بھی مسائل ہیں حالیہ بارش نے شہر میں جو تباہی مچائی اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی تھیں اس مسئلے کا بھی مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔
کراچی کے نالوں کی صفائی کرنے میں تاخیر کی وجہ سے بارش نے زیادہ تباہی مچائی، اگر وفاقی حکومت کی ہدایت پر این ڈی ایم اے نے نالوں کی صفائی نہ کی ہوتی تو یہ سندھ حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ میئر کراچی نے پہلے ہی اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا تھا۔ پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کافی ارکان کراچی میں موجود ہیں وہ سندھ حکومت پر آئے دن چڑھائی کرتے رہتے ہیں مگر وفاقی حکومت سے یہ نہیں پوچھتے کہ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے اس نے دو سال قبل جو 162 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟

سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں سندھ حکومت اور میئر کراچی کی سرزنش کا وفاقی حکومت نے سخت نوٹس لیا ہے۔ اس نے کراچی کے مسائل کا آئینی و قانونی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے یہ ٹاسک وزارت قانون کے سپرد کر دیا ہے اور خبروں کے مطابق وزارت قانون نے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے مگر بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے جو سراسر غیر آئینی اور غیر جمہوری روایت کو جنم دینے کے مترادف ہو گا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اٹارنی جنرل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کراچی ایک یتیم شہر بنا ہوا ہے ان کے مطابق کراچی اگر تباہ ہوا تو پھر پاکستان کو بھی تباہی سے بچانا مشکل ہو گا، اس لیے کہ کراچی پر ہی ملک کی معیشت کا دار و مدار ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی کو پاکستان کے تمام شہروں پر فوقیت حاصل ہے مگر جان بوجھ کر کراچی کے مسائل سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ واضح ہو کہ مایوسیوں کا شکار ہو کر ہی یہ شہر ماضی میں شورشوں کا شکار رہ چکا ہے۔ جشن آزادی کے موقع پر ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کراچی کی انتظامیہ کراچی کے عوام کے ہاتھ میں نہیں آتی اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے جاتے بقول ان کے 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات ضرور منتقل کیے گئے ہیں مگر وہ وزیر اعلیٰ کی ذات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اس اہم مسئلے کا ضرور حل نکالا جانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ کراچی صوبے کے شوشے سے نکل کر عوامی مسائل کی جانب توجہ دے ورنہ آیندہ انتخابات میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ایم کیو ایم بھی اپنے میئر کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپنی اہمیت بھی کھو سکتی ہے۔

عثمان دموہی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کراچی کو جینے دو

’’جینے دو کراچی کو ‘‘ کے عنوان سے جیو نیوز کی خصوصی نشریات میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، مئیر کراچی وسیم اختر، صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب ، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن، تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی، سابق ناظم کراچی مصطفی کمال اورعوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر شاہی سید جیسے اہم مقامی رہنماؤں کا شہری مسائل کے حل کیلئے مل بیٹھنا یقینا ایک مستحسن اقدام تھا ۔ تمام شرکاء نے اپنے نقطہ نظر کا کھل کر اظہار کیا جس سے مسائل کے اصل اسباب کی نشان دہی ہوئی تاہم وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ دعویٰ کہ ’’کراچی کے مسائل بڑھ نہیں رہے کم ہو رہے ہیں‘‘ اہل شہر کیلئے یقیناً حیران کن ہے جن کی زندگیاں پانی و بجلی کے مستقل بحران، گلی کوچوں میں کوڑے کرکٹ کے انبار میں مسلسل اضافے، سیوریج کی روز بروز ابتر ہوتی صورتحال ، شکستہ سڑکوں اور آئے دن کے ٹریفک جام نے دوبھر کر رکھی ہیں۔

وزیر اعلیٰ کے بقول کراچی کے مسائل کے حل کیلئے دس ارب ڈالر درکار ہیں جو نہ سندھ کے پاس ہیں نہ وفاق کے پاس۔ اس بات کو درست مان لیا جائے تو اہل کراچی کو موجودہ صورت حال پر ہی قانع رہنا چاہیے کیونکہ ’’نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا بتدریج اصلاح و بہتری کا سلسلہ شروع کرنا ممکن نہیں جس کیلئے بیک وقت اس خطیر رقم کی ہرگز ضرورت نہیں ہو گی۔ آخر اسی شہر میں عبدالستار افغانی، نعمت اللہ خان کے ادوار میں ترقی اور بہتری کے اقدامات نسبتاً بہت کم وسائل سے نہایت کامیابی سے عمل میں لائے ہی جا چکے ہیں اور دوبارہ ایسا ہونا یقیناً محال نہیں۔ پروگرام کے دیگر شرکاء بالعموم جس ایک نکتے پر متفق نظر آئے وہ یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے میٹروپولیٹن شہروں کی طرح کراچی کے مسائل کا حل بھی ایک بااختیار مقامی حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کا تجربہ ماضی میں ہو بھی جا چکا ہے لہٰذا اس سمت میں جلدازجلد پیش رفت ضروری ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی کی قسمت کبھی نہیں بدلے گی

کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز رکھنے والا یہ شہر اُن کی وفات سے یتیم اور لاوارث ہو گیا تھا۔ سویلین حکومتوں کے دور میں تو یہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کا دارالحکومت بنا رہا لیکن جیسے ہی کسی ایک غیر سویلین حکمراں کو برسراقتدار آنے کے بعد موقعہ ملا اُس نے اِس شہر سے یہ اعزاز چھین لینے پر مکمل عملدرآمد بھی کر لیا۔ پھر کیا تھا یہ شہر کسی پلاننگ اور منصوبے کے بغیر اپنے طور پر خود ہی پھیلنے اور بڑھنے لگا۔ پانی، سیوریج اور بجلی کی فراہمی کے کسی باقاعدہ نظام کی تشکیل کے بناء ہی یہ خود رو جھاڑیوں اور پودوں کے طرح جہاں چاہا وسعت پاتا رہا۔ ایوب خان دور کے بعد پہلی جمہوری اور سویلین حکومت جس شخص کی بنی وہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تھی، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کی تباہی و بربادی کے اصل داستان شروع ہی اُن کے دور سے ہوتی ہے۔ ویسے تو انھیں کراچی سے بظاہر بہت محبت تھی لیکن یہاں چونکہ اردو بولنے والوں کی تعداد تمام شہروں سے زیادہ تھی لہٰذا انھیں یہ بات شاید پسند نہیں آئی اور اپنی پہلی فرصت میں انھوں نے اردو زبان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

سندھی زبان کو صوبے کی زبان قرار دینا کوئی غلط اور ناجائز کام نہیں تھا لیکن سرکاری نوکریوں میں سندھ کے شہری اور دیہی کی تفریق کر کے انھوں نے اِس صوبے سے وہ زیادتی کر دی جس کا خمیازہ نہ صرف اردو بولنے والے لوگ ہی بھگت رہے ہیں بلکہ اِس صوبے میں بسنے والے کروڑوں لوگ بھی اِس کی ترقی و خوشحالی سے محروم ہوتے چلے گئے۔ قابلیت اور اہلیت کا جنازہ جس احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے نکالا گیا تھا ، وہ احساس محرومی آج چالیس پچاس سال گزر جانے کے بعد میں ختم نہیں ہو پایا ہے۔ اندرونِ سندھ کے لوگ آج بھی اُسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، جو اِس کوٹہ سسٹم سے پہلے گزار رہے تھے۔ کراچی کی اہمیت وافادیت کم کر کے کسی نے سندھ کی اہمیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ اِسے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مقابلے میں بھی کئی درجہ کم کر دیا۔ دس سال کے لیے نافذ کیا جانے والا یہ کوٹہ سسٹم آج 46 برس گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو سکا ۔

اسلام آباد میں تمام حکومتوں کی مجبوریاں اورمصلحتیں اِسے ختم کرنے کی راہ میں حائل ہوتی رہیں۔ وفاق میں حکومت کرنے والی کسی بھی جماعت کے مفادات کراچی شہر کے باسیوں سے جڑے نہیں رہے ہیں۔ 2018 تک یہاں الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کا تعلق کسی بھی ملک گیر بڑی پارٹی سے نہیں رہا۔ لہٰذا اِس کی ترقی وخوشحالی کسی کو بھی مقدم نہ تھی، پھر یہاں کے اردو بولنے والوں کی حمایت میں جس سیاسی پارٹی نے 30 سال تک مہاجر تنظیم کے نام پر ووٹ حاصل کیے اُسی نے اِس شہر کا مزید حال بگاڑ کر رکھ دیا اور اِسے ایک جھگڑالو، بھتہ خور اور دہشت پسند لوگوں کے شہر سے منسوب کروا دیا۔ تیس سال تک یہ شہر لوٹ مار، قتل وغارت گری اور خونریزی کا مرکز بنا رہا۔ کہنے کو پرویز مشرف ایک غیر سویلین حکمراں تھے وہ چاہتے تو اِس شہر کو آسانی سے امن کا گہوارہ بنا سکتے تھے لیکن انھوں نے بھی اپنی ساری قوت اور طاقت اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں صرف کر دی۔ مہاجر ہونے کے ناتے کراچی سے انھیں ہمدردی ضرور تھی لیکن انھوں نے بھی ایم کیوایم کو استعمال کیا۔ 12 مئی 2007 کا اندوہناک واقعہ انھی کے دور میں پیش آیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی 2008 سے متواتر سندھ پر حکومت کر رہی ہے لیکن اِس پارٹی نے ابھی تک اُن لوگوں سے بھی وفا نہیں کی جن سے وہ ووٹ لے کر حکومت کیا کرتی ہے تو پھر کراچی کی بھلا کیونکر وہ کوئی خدمت کرے گی۔ کراچی شہر کی سڑکوں کی جوحالت ِزار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔سوائے چند بڑی شاہراہوں کے شہرکی تمام سڑکیں ایک عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نہ سندھ حکومت کوئی توجہ دے رہی ہے اور نہ شہری حکومت۔ شہری حکومت تو چار سال ہو گئے صرف اپنے اختیارات اور فنڈز کا رونا ہی روتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مخاطب ہو کر درست ہی کہا کہ جب اختیارات نہیں ملے تو میئرکی سیٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ میئر کراچی وسیم اختر وہاں تو کچھ نہیں کہہ سکے لیکن دوسرے دن باہر نکل کر اپنی خجالت یوں دور کر رہے تھے کہ ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ میئر شپ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔

گویا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھا جائے کہ کوئی کام بھی نہیں کرنا ہے اور اقتدار چھوڑنا بھی نہیں ہے۔ یہاں جس کسی کو چھوٹی سی چھوٹی بھی پوسٹ مل جائے وہ اُس سے الگ ہونا نہیں چاہتا۔ اُسے کوئی نہ کوئی مفاد تو ضرورعزیز ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کراچی کی ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے وہ دنیا کے کسی شہر میں بھی نہیں ہو گا۔ 12 سال سے سندھ حکومت ہر سال سالانہ بجٹ میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ایک خطیر رقم ضرور رکھتی ہے اور 500 نئی بسیں لانے کا وعدہ بھی ضرور کرتی ہے لیکن کیا مجال کہ کسی برس بھی یہ وعدہ وفا ہو جائے۔ گرین لائن کا جومنصوبہ میاں نوازشریف شروع کر گئے تھے اُس میں صوبے کی حکومت کی دلچسپی رتی برابر بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈھائی تین سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ پانی اور سیوریج کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔

بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کے الیکٹرک کے نااہلی کی وجہ سے یہاں کے شہری ایک اور عذاب سے گذر رہے ہیں لیکن نہ صوبائی حکومت اور نہ وفاقی حکومت کو اِس مسئلہ کے حل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی ہے۔ صرف پریس کانفرنسیں کر کے اور زبانی جمع خرچ کر کے وزراء عوام کو تسلی اور دلاسہ دیکر چلے جاتے ہیں مگراُن کے جانے کے بعد کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی۔ نہ لوڈ شیڈنگ کم ہوتی ہے اورنہ کوئی اورمسئلہ حل ہوتا ہے۔ اب یہ یہاں کی صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ اِن دونوں پروجیکٹس کو تیزی سے آگے بڑھائے ۔ کراچی کے نظام کوچلانے کے لیے کبھی کبھار ہمارے یہاں گورنر راج نافذ کرنے یا شہر کو وفاق کے حوالے کرنے کی باتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اول توآئین کے تحت ایسا کرنا ناممکن ہے اور اگر زبردستی بھی کر لیا جائے تو عدالتیں اُسے معطل یا منسوخ ضرور کر دیں گی۔ وفاق سے اپنے کام تو ہو نہیں پارہے تو وہ بھلا دوسرے پنگے اپنے سر کیوں لے۔ وفاق کی اپنی کارکردگی بھی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ فخر سے اُس کا کریڈٹ اپنے نام سجا سکے۔ ایسے میں کراچی کے مسائل حل کرنے کا ٹھیکہ وہ بھلا اپنے ذمے کیوں باندھے گی۔کراچی کے لیے خان صاحب نے ایک سال پہلے 162 ارب کے فنڈز دینے کا وعدہ کیا تھا وہ تو ابھی تک پورا نہیں کر پائے ہیں تو بھلا سارے شہر کے مسائل کو اکیلے کیسے حل کر پائیںگے۔ لہٰذا عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کراچی کو وفاق اپنی تحویل میں لے لیگا، یہ سب سیاسی اسٹنٹ ہوا کرتے ہیں۔ وقت گذارنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر منصور نورانی

بشکریہ ایکسپریس نیوز