Standard
Posted by
KHAWAJA UMER FAROOQPosted on
February 2, 2022Posted under
Baldia Karachi, Graveyard, Karachi, Pakistan, Problems of Karachi, WorldComments
Leave a commentکراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے یہ شہر بےحس سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں جو سہولتیں کراچی والوں کو ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں مل رہیں۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور ملتان تک کو میٹرو بس مل گئی، لاہور میں تو اورنج ٹرین بھی آ گئی لیکن کراچی والوں کو بڑی مشکل سے اور وہ بھی وفاقی حکومت کی مہربانی سے آدھی ادھوری گرین بس اسکیم حال ہی میں مل سکی ہے۔ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہو، پانی کا، صفائی کا یا کوئی دوسرا، صوبائی حکومت کی اِن مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں جبکہ بلدیاتی نظام اتنا ناقص اور بے بس ہے کہ وہ بھی ناکارہ ہو چکا ہے۔ اِس سب کی وجہ سے کراچی والوں کی حالت قابلِ ترس ہے۔
صدر صاحب کراچی والوں نے آپ کو کامیاب کرایا صرف اس لئے کہ آپ نے کراچی کی سڑکوں پررکشے میں گھوم گھوم کر کراچی والوں سے بہت وعدے کئے تھے کہ ہم آئیں گے توکراچی کو پیرس بنا دیں گے مگر آپ نے ابھی تک کراچی والوں سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا بلکہ آپ کے دور میں کوٹے کو بھی موخر کر دیا گیا اور وزیر اعظم صاحب نے کراچی والوں کے لئے 1100 ارب کاجو وعدہ کیا تھا وہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوا، کراچی کے لڑکوں پر اب تک نوکریاں بند ہیں، یہاں تک کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بھی جو نوکریاں نکلی ہیں اس میں لکھا ہے کہ کراچی کے ڈومیسائل والے اپلائی نہ کریں آپ بتائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کے ڈی اے کا نام تبدیل کر کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کر دیا گیا ہے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کو بھی ہتھیا لیا گیا اور بلدیاتی انتخابات بھی نہیں کرائے جا رہے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی کو ایک کروڑ دکھایا گیا ہے، جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ تو نادرا کے کارڈ جاری ہو چکے ہیں۔
ڈیڑھ ماہ قبل، انتہائی شدت کے سمندری طوفان ’’شاہین‘‘ نے عمان میں تباہی پھیلا دی۔ تیز ہوائوں، طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے کم از کم 13 افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ طوفان (گلاب) تھا، جو پہلے کراچی سے ٹکرانے والا تھا لیکن چند کلومیٹرکے فاصلے سے اُس نے اپنا رُخ کراچی سے عمان کی جانب موڑ لیا تھا۔ ’’گلاب‘‘ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کے الیکٹرک (کے ای) سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پہلے ہی تیاریاں کر چکے تھے، لیکن متوقع ’’موسلادھار بارشوں‘‘ سے ہونیوالے نقصان کے خدشات نے انھیں پریشان کر رکھا تھا، جس سے شہر کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو شدید خطرات لاحق تھے۔ خوش قسمتی سے طوفان نے اپنا رُخ موڑ لیا اور شہر ممکنہ تباہی سے محفوظ رہا، لیکن کیا ہم مستقبل میں بھی ایسے ہی خوش قسمت ثابت ہوں گے؟ بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع کراچی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار خطوں میں ہوتا ہے اور اسے بدلتے ہوئے موسمیاتی حالات کے تناظر میں دنیا کے 12 ویں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار شہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس رئیل اسٹیٹ کو معیشت کا باقاعدہ حصہ بنانے کی غرض سے صنعت کا درجہ دینے اور اس کی ترقی کیلئے متعدد مراعات کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے اب تک براہِ راست اور بالواسطہ طور پر تعمیراتی شعبے میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے یہاں تک کہ لوگوں نے نقصان میں جانے والے منصوبوں سے سرمایہ نکال کر تعمیراتی صنعت میں لگایا اور اس وقت ملک کے طول و عرض میں بےشمار ہائوسنگ اسکیمیں اور کمرشل و رہائشی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ مزید برآں تعمیراتی سامان سے متعلق صنعتوں میں بہتری دکھائی دے رہی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سابق ممبر نے ایف بی آر کے غیرمنقولہ پراپرٹی کی ویلیو سے متعلق فیصلے کو فاش غلطی قرار دیا ہے جس کے تحت بعض علاقوں میں 35 سے 700 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کراچی کو مسلسل پسماندہ رکھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کراچی تشریف لائے انھوں نے ایک دفعہ پھر کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس صدی کے 21 برسوں میں کراچی سرکلر ریلوے کا تیسری دفعہ سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کی تقریب دو دفعہ منعقد ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نے اس تقریب کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی مدعو کیا۔ وزیر اعظم کو اس موقع پر دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کے سی آر منصوبہ پر 207 بلین روپے خرچ کرے گی۔ یہ منصوبہ 18 سے 24 ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہو گا۔ سرکلر ریلوے کے لیے جدید ترین ڈبے اور انجن درآمد کیے جائیں گے اور سرکلر ریلوے کو اس طرح جدید خطوط پر تعمیر کیا جائے گا کہ اس پر دوسرے ٹریفک کو روکنے کے لیے کوئی پھاٹک نہیں ہو گا۔