ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

کیا پہلی بار کراچی کے علاقے مہران ٹاؤن ، کورنگی میں واقع فیکٹری میں مزدور جھلس کر جاں بحق ہوئے؟ مزدوروں کا قتل مختلف طریقوں سے مختلف ملکوں اور خطوں میں کیا جاتا رہا ہے۔ ایک تو معاشی قتل، بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنا، معدنیات کی کانوں میں دب کر مرنا ، جنگوں میں مرنا، زلزلوں، طوفانوں، گرمی اور سردی میں ٹھٹھر کر مرنا اور سب سے زیادہ بھوک سے مرتے ہیں۔ قدر زائد کو چوری کر کے سرمایہ دار خود تو ارب پتی اور کھرب پتی بن جاتا ہے جب کہ مزدور فاقوں سے مر جاتے ہیں۔ کم وقت میں زیادہ کام لینے سے مزدور کی حیات تنگ ہو جاتی ہے اورکم تنخواہ دے کر زیادہ وقت کام لینے سے بھی وہ جوانی میں ہی بوڑھا لگتا ہے۔ یہ تو رہا مزدوروں کا عالم گیر استحصال۔ جہاں تک پسماندہ ملکوں میں مزدوروں کے استحصال کا تعلق ہے تو وہ انتہائی ہیبت ناک اور خوف ناک ہوتا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا میں برملا اور دھڑلے سے استحصال ہوتا ہے۔

سانحہ کورنگی سے قبل اسی کراچی میں بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری میں آگ سے جھلس کر اور دم گھٹنے سے 268 مزدور شہید ہوئے تھے اور پھر گڈانی شپ یارڈ میں شپ بریکنگ کے دوران 10 مزدور جھلس کر شہید ہوئے تھے۔ ان دونوں اندوہناک سانحے انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے ہیں۔ ان میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی کاوشوں سے معاوضہ تو ادا کیا گیا لیکن ابھی تک مزدوروں کی شہادت کے قصور واروں کی شناخت ہوئی اور نہ کوئی سزا۔ ایسی صورت حال کورنگی مہران ٹاؤن میں سفری بیگ بنانے والی فیکٹری کے شہیدوں کے ساتھ بھی نہ ہو۔ کراچی اور پاکستان بھر میں فیکٹریوں، ملز، کارخانوں اور بیشتر صنعتی اداروں میں حادثات سے بچنے کے لیے قبل از وقت احتیاتی تدابیر اختیار نہیں کی جاتی ہیں۔ عالمی مزدور قوانین کے مطابق آگ لگنے پر خبرداری کی گھنٹی بجانا ضروری ہے۔

ہر فیکٹری کے عقب میں نکلنے کا راستہ رکھنا ضروری ہے۔ فائر فائٹنگ کے آلات، دیوار توڑ کر نکلنے کا بندوبست، کھڑکیاں اور دروازے کشادہ ہوں اور حفظان صحت کے مطابق فیکٹری کی تعمیر ہونی چاہیے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بعد تو صوبائی، وفاقی حکومتوں، لیبر ڈپارٹمنٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فائر بریگیڈروں اور فیکٹری مالکان کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھی ، مگر اب بھی 90 فیصد ملوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کے تحفظات کے لیے عالمی لیبر لاز پر قطعی کوئی عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ حالیہ کورنگی کی فیکٹری میں پیچھے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، چھت پر جانے کی مزدوروں نے کوششیں کیں تو اوپر کے دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔ مرکزی داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ فیکٹری کی کھڑکیوں میں لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں جہاں سے کوئی چھلانگ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔

فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد بھی انتظامیہ مزدوروں کو فیکٹری سے اندر کا مال نکالنے پر زور دیتی رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ مزدوروں کی زندگی سے زیادہ مال کی فکر تھی۔ آگ لگنے کے بعد لوگوں نے فائر بریگیڈ کو 30 سے 35 کالیں کیں مگر فائر بریگیڈ کی گاڑی کوئی ڈھائی گھنٹے کے بعد آئی۔ حکومت سندھ نے صنعتی علاقوں کے لیے الگ سے خصوصی فائر بریگیڈ کی ٹیم شکیل دی تھی، مگر جب فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچیں تو ان کے پاس پانی کی کمی تھی۔ آگ لگنے کے بعد سے بجھنے تک کوئی وزیر، کوئی مشیر یا حکام اعلیٰ نہیں پہنچے۔ ہاں مگر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور اور فیڈریشن سندھ کے صدر گل رحمن اور سعیدہ بروقت پہنچے۔ مزدوروں کے لواحقین سے ملے، ایدھی سینٹر کے اہل کاروں سے ملاقات کی اور احتجاج کیا اور طبقاتی جدوجہد کے رہنما جنت حسین بھی موقع پر موجود تھے۔

بعدازں فیکٹری کی آگ بجھنے کے بعد نماز جنازہ میں مرتضیٰ وہاب، وقار مہدی اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فیکٹری قانونی تھی یا غیر قانونی۔ مسئلہ ہے مزدوروں کی جان کی حفاظت کا نظام ہونا ILO اور پاکستان لیبر لاز کے مطابق لازم ہے کہ ہر فیکٹری میں فائر الارم، فائر فائٹنگ کے آلاگ، فیکٹری سے نکلنے کا محفوظ راستہ، کھڑکیاں کشادہ اور بغیر سلاخوں کے ہوں، چھت پر جانے کا راستہ کشادہ اور گزرنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جب بلدیہ ٹاؤن سانحے کے ذمے داروں کی شناخت آج تک نہیں ہوئی اور نہ کوئی سزا کا مرتکب ٹھہرا۔ پھر مزدور اس سانحے کے بہتر نتائج کی کیونکر توقع کریں۔ اس سلسلے میں بہت سی سیاسی، سماجی، مذہبی اور ٹریڈ یونین نے مذمتی بیانات دیے ہیں لیکن شہید مزدوروں کے قاتلوں کی گرفتاری اور جلدازجلد انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بہت کم جماعتیں کر رہی ہیں۔

فیکٹری میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ پہلی اور دوسری منزل پر موجود ملازمین کو نکلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور وہ بے بسی کی موت مارے گئے۔ فائر افسر سعید اللہ کے مطابق جیسے ہی آگ کی اطلاع ملی اور اس کی شدت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور شہر بھر سے فائر بریگیڈ کے عملے کو طلب کرلیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کی 12 گاڑیاں، اسنارکل اور باؤزر کے علاوہ واٹر ٹینکروں کی مدد سے پانی فراہم کیا گیا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ فیکٹری میں جانے اور آنے کا ایک ہی راستہ ہے جب کہ کھڑکیوں پر گرل لگی ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، تاہم فائر بریگیڈ کے عملے نے سخت جدوجہد کے بعد فیکٹری کی ایک دیوار توڑ کر آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ فیکٹری گراؤنڈ پلس ٹو میں صمد بونڈ اور مٹی کا تیل بھی رکھا تھا، جس کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلی۔ آگ پر قابو پانے کے دوران کرین کی مدد سے فیکٹری کی پہلی اور دوسری منزل پر جان بچاتے ہوئے دم گھٹنے اور جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کو نکالا گیا۔ جب لاشیں جناح اسپتال پہنچنے لگیں تو اسپتال انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ وہاں مزدوروں کے لواحقین پہنچ گئے جہاں کئی رقت انگیز مناظر دیکھنے کو ملے۔

ایدھی اور چھیپا کے 3 رضاکار آگ بجھانے اور مزدوروں کو نکالتے ہوئے دم گھٹنے کی وجہ سے چھت سے زمین پر گر پڑے جنھیں جناح اسپتال پہنچایا گیا، اگر شروع میں ہی دیوار توڑ دی جاتی تو مزدوروں کو زندہ نکالا جاسکتا تھا۔ یہ بھی حکومت انتظامیہ کی شدید غلطی بلکہ جرم ہے کہ شروع میں ہی دیوار کیوں نہیں توڑی گئی۔ جب کوئی صاحب جائیداد طبقات کا شخص مرتا ہے تو اس کے لواحقین کے پاس جاکر تعزیت کی جاتی ہے اور صدر ، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام ان کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، مگر جب مزدور مرتا ہے تو ان کے لواحقین کے پاس صدر اور وزیر اعظم جاتے ہیں اور نہ جنازے میں شرکت کرتے ہیں ۔ یہ ہے طبقاتی نظام۔ یہ نظام ہی سرمایہ داروں اور صاحب جائیداد طبقات ہے وہ کیونکر مزدوروں کی شہادت پر اتنی تکلیف کریں گے۔

زبیر رحمٰن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کراچی : سانحہ بلدیہ ٹاون کے متاثرین پانچ سال بعد بھی انصاف کے منتظر

تیس سالہ شہروز نے 11 ستمبر 2012ء کو معمول کے مطابق ڈیوٹی پر جانے سے قبل بہن کو فیکٹری کے گیٹ پر چھوڑا تھا جہاں وہ پیکنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی۔ دونوں بہن بھائیوں کی مشترکہ آمدن سے گھر کا خرچہ جیسے تیسے نکل ہی آتا تھا۔ لیکن شہروز کو معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی پیاری بہن کو آخری بار فیکٹری چھوڑنے جا رہا ہے۔ اسی شام کراچی کی ‘علی انٹرپرائز’ میں لگنے والی آگ میں صائمہ سمیت 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ کراچی میں پیش آنے والے اس اندوہ ناک سانحے کے پانچ سال مکمل ہونے پر متاثرین کے غم ایک بار پھر تازہ ہو گئے ہیں۔ لوگ آج بھی سانحے کے پیچھے چھپی کہانی اور اس کے کرداروں سے لاعلم ہیں۔

میرے اس سوال پر کہ کیا انصاف ملنے کی کوئی امید ہے، شہروز جھنجھلا کر مجھ ہی سے سوال کرنے لگا، “کیا اتنے برسوں بعد بےنظیر بھٹو کو انصاف مل گیا؟” سرکار کی جانب سے اس واقعے کو ملکی صنعتی تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دے کر پہلے فیکٹری مالکان کے خلاف قتل بالخطا کی دفعات کے تحت مقدمہ سیشن عدالت میں چلایا جاتا رہا۔ لیکن پھر معلوم ہوا کہ آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔ تفتیش کاروں کے مطابق آگ لگانے کی وجہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 35 کروڑ روپے بھتہ دینے سے انکار تھا۔ پھر اس نئے انکشاف کی روشنی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی جس نے اس انکشاف پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ فیکٹری کو آگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی گئی تھی۔

اب یہ مقدمہ لگ بھگ 10 ماہ سے انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ہے اور کیس کے دو مرکزی ملزمان عبدالرحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقدمے میں نامزد ایک ملزم عبدالرحمان عرف بھولا کو دسمبر 2016ء میں بینکاک سے گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا تھا۔ عبدالرحمان عرف بھولا نے مقدمے کی سماعت کے دوران مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں اپنے جرم کا اقرار اور اس پر پشیمانی کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ رحمان عرف بھولا نے اپنے بیان میں اس واقعے میں سابق صوبائی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکنِ سندھ اسمبلی رؤف صدیقی کے ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کیا جسے رؤف صدیقی رد کر چکے ہیں۔

مقدمے کا ایک اور اہم ملزم حماد صدیقی اب تک قانون کی گرفت سے دور ہے۔ حماد صدیقی بھی ایم کیو ایم کا سابق رہنما ہے اور عدالت اس کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے۔ لیکن ایک جانب جہاں مرکزی ملزم قانون کی گرفت سے آزاد ہے، وہیں گرفتار ملزمان کے خلاف بھی مقدمہ انتہائی سست روی کا شکار ہے اور اب تک ملزمان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی جا سکی ہے۔ مقدمے کی حساسیت اور گرفتار ملزمان کی سیکورٹی کے پیش نظر مقدمہ سینٹرل جیل کراچی ہی میں چلایا جا رہا ہے۔ بدترین “صنعتی حادثے” سے “مجرمانہ سازش” تک ہونے والی یوٹرن تحقیقات کا ابھی عدالت میں ثابت ہونا باقی ہے۔

لیکن پانچ سال بعد بھی کیس ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں سرکار کے وکلا کا کہنا ہے کہ اب کیس “ٹھیک سمت” میں چل پڑا ہے لیکن واقعے میں ملوث کرداروں کو سزا ملنے کے خواب کی تعبیت اب بھی کوسوں دور ہے۔
کراچی کے ایک نامور وکیل محمد فاروق کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدالتی نظام کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے جسے جتنا جلد ہو سکے نمٹانا چاہیے۔
لیکن ان کے بقول اس مقدمے میں انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرنا بھی ضروری ہیں تاکہ ملزمان کو صفائی کا موقع ملے اور حقیقی مجرموں کا تعین بھی ہوسکے۔

ماہرین کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت تو ایسے مقدمات کا فیصلہ سات روز میں ہو جانا چاہیے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ماہرین کے بقول قوانین میں تبدیلی، عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے اور اس کے ساتھ تفتیش کے معیار کو بہتر بنائے بغیر مجرموں کو فوری سزائیں دلانا ایک خواب ہے۔ اہم قانونی اصلاحات کے نفاذ اور اس بدترین سانحے کے پیچھے چھپے لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی بھی ضروری ہے جس کے بغیر یہ کام ادھورے ہی رہیں گے۔ اور اس وقت تک ہر برسی پر سانحہ بلدیہ کے متاثرین کے پاس آنکھوں میں آنسو لیے اپنے پیاروں کو یاد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

محمد ثاقب

سانحہ بلدیہ : متاثرین کو 51 لاکھ ڈالر زرتلافی دینے کا سمجھوتہ

پاکستان کے شہر کراچی کی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں چار سال قبل پیش آنے والے حادثے کے زخمیوں اور ہلاک ہونے والے 250 مزدروں کے لواحقین کو 51 لاکھ ڈالر سے زائد زرتلافی دینے کے لیے سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ خیال رہے کہ رواں برس فروری میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فیکٹری میں لگائی جانے والی آگ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت شر انگیزی اور دہشت گرد کارروائی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن رحمان بھولا اور حماد صدیقی کی طرف سے فیکٹری مکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری کی آمدن میں حصے دینے سے انکار پر آگ لگائی گئی تھی۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کلین کلاتھ کیمپین نامی ادارے کی جانب سے موصول ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق یہ معاہدہ سنیچر کو طے پایا۔ جس کےتحت متاثرین اور ان کے لواحقین کے لیے یہ معاوضہ کک نامی جرمن ریٹلر کی جانب سے ادا کیا جارہا ہے جو کراچی کے بلدیہ ٹاؤن علاقے میں واقع کارخانے علی انٹرپرائزز کے مال کے بڑے خریدار تھے۔
 کک رعایتی نرخوں پر کپڑے فروخت کرتی ہے اور اس کی ایک جینز کی قیمت 16 یورو کے قریب ہوتی ہے۔ یہ رقم حادثے میں زخمی ہونے والے مزدوروں کے علاج معالجےان کی بحالی اور ہلاک ہوجانے والوں کے لواحقین کی آمدنی کا نقصان پورا کرنے کی مد میں ادا کی جارہی ہے۔ سنہ 2012 میں حادثے کے فوراً بعد کک کی جانب سے دس لاکھ ڈالر کی امدای رقم جاری کی گئی تھی۔ جسے پاکستان میں مزدور یونینوں نے انتہائی قلیل قرار دیا تھا۔ یہ رقم اس کے علاوہ ہے۔
معاوضے کی ادائیگی کے لیے مذاکرات میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں نے حصہ لیا۔

بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ بھتہ نہ دینے پر لگائی، 250 افراد لقمہ اجل بن گئے

 کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت شر انگیزی اور دہشت گرد کارروائی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن رحمان بھولا اور حماد صدیقی کی طرف سے فیکٹری مکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری کی آمدن میں حصے دینے سے انکار پر آگ لگائی گئی۔
اس تحقیقاتی ٹیم میں ڈی آئی جی منیر شیخ، ڈی آئی جی سلطان خواجہ، ایس ایس پی ساجد سادھوزئی شامل تھے۔
اس رپورٹ میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد مقدمے کا اندراج اور اس کے بعد تحقیقات نہ صرف بددیانتی پر مبنی تھیں بلکہ اس پر اندرونی اور غیر ضروری دباؤ تھا۔
دہشت گرد کارروائی کو ایف آئی اے میں سادگی سے قتل کا معاملہ دکھایا گیا اور بعد میں اسے حادثے میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور یہ اس جرم کرنے والوں کے خلاف نہیں بلکہ فیکٹری مالکان اور اس کی انتظامیہ کے خلاف تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس انداز میں اس واقعے کی تحقیقات کی گئی ہیں اسے سے پولیس پر اثر و سوخ سے اس کی طرفداری اور جانبداری کے حد کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کے ریاست اس واقعے کے بارے میں درج کی گئی ایف آئی آر واپس لے اور تعزیرات پاکستان کے دفعہ 1861 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوبارہ مقدمہ درج کرائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیم نے محمد زبیر کے واقعے میں کردار کا معلوم کرنے کی کوشش کی کیونکہ تمام دستیاب شواہد اس جرم میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیم نے محمد زبیر کے سعودی عرب میں مقیم والد محمد نذیر کو تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے واپس وطن آنے کے لیے ٹکٹ دینے کی متعدد بار پیشکش کی لیکن ہر بار اس کو مسترد کر دیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مزید تحقیقات کا انحصار اس سے کی جانے والے تحقیقات پر ہو گا۔
بیرون ملک فرار ہونے والے ملزمان کو دوبارہ واپس لایا اور گرفتار کیا جائے۔
مفرور ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کیے جائیں اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جائے۔
تمام عینی شاہدین کو ’شاہدین تحفظ‘ کے ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس کے علاوہ فیکٹری کے واقعے کے بعد مالکان سے بھتے کی مد میں وصول کی جانے والے املاک کو قانونی طریقہ کار کے تحت واپس منتقل کیا جائے۔
اس کے علاوہ دیگر سفارشات میں آئندہ ایسے واقعے سے بچنے کے لیے نئے قانون بنانے اور نئی حفاظتی طریقہ کار کے مرتب دینے اور اس پر فیکٹری ملکان اور ملازمین کو تربیت دینے کا کہا گیا ہے تاکہ مستقل میں دہشت گردی کے اس نوعیت کے واقعات سے بچا جا سکے۔
اس کے علاوہ کراچی میں امدادی اداروں کی تعمیر نو اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

Street crime in Karachi

اگرچہ شہرِ قائد میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ ملزمان، عسکریت پسندوں اور شر پسندوں کو پکڑنے میں بہت زیادہ مستعدی بھی دکھا رہے ہیں، تاہم یہ ساری پریکٹس اسٹریٹ کرائمز کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے اور پولیس و رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے پہلے 14 مہینوں کے دوران موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے کے متعدد کیسز رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔
کراچی پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداو شمار کے مطابق کراچی کے شہری، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیے جانے کے بعد 421 دنوں میں 18,519 موبائل فونز سے محروم ہوئے، جبکہ اس سے قبل اتنے ہی دنوں میں یہ تعداد 11,295 تھی۔
کراچی پولیس کے ایک عہدیدار نے اعدادو شمار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ستمبر 2013 میں جب اس آپریشن کا آغاز کیا گیا تو کراچی کے شہری ایک دن میں 44 موبائل فونز سے محروم ہو رہے تھے، جبکہ آپریشن شروع کیے جانے سے قبل یہ تعداد 27 تھی’۔
‘اسی طرح آپریشن کے 421 دنوں کے دوران 26,040 موٹر سائیکلیں یا تو چھینی گئیں یا پھر چوری ہو گئیں، جبکہ آپریشن سے قبل اتنے ہی دورانیے میں موٹر سائیکلیں چھیننے یا چوری ہونے کے 24,672 واقعات ہوئے’۔
‘اس کا مطلب یہ ہے کہ آپریشن کے آغاز کے بعد ہر دن 58 شہری اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم ہو رہے ہیں’۔
کراچی پولیس کو بھی اس ٹارگٹ آپریشن میں مستعدی دکھانے کی قیمت، دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیوں سے لے کر پولیس مقابلوں، مافیا اور اہم سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ جیسے مسائل کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے اور اکتوبر 2014 تک محکمہ پولیس اپنے 132 اہلکار کھو چکی ہے۔
جہاں پولیس اور رینجرز کی کارروائیوں کی بدولت کسی حد تک فرقہ وارانہ اور سیاسی بنیادوں پر قتل کی وارداتوں میں کمی آئی ہے وہیں موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے سمیت دیگر اسٹریٹ کرائمز کی تعداد میں اضافے نے اس حوالے سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں، تاہم سیکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔
سٹیزن پولیس لائیژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے چیف احمد چنائے کے مطابق ‘آپریشن کے دوران چار سنگین جرائم جیسے قتل، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمز پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے’۔
‘تین مسائل جیسے قتل، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے پولیس اور رینجرز کے خصوصی یونٹس کام کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان جرائم کی شرح میں تیزی سے کمی آئی ہے، جبکہ اسٹریٹ کرائمز کو صرف پولیس اسٹیشنز کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاتا ہیے اور ان کی کارکردگی یقیناً اچھی نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پولیس اسٹیشنزکو اتنے وسائل مہیا نہیں ہیں اور دوسری جانب وہ موبائل اور موٹر سائیکل چھینے کی وارداتوں کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے’۔
احمد چنائے کا کہنا تھا کہ ‘سی پی ایل سی میں ہم نے متعدد بار ان جگہوں کی نشاندہی کی ہے، جہاں اسٹریٹ کرائمز کی شرح زیادہ ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان مقامات پر مناسب نفری تعیانت کی جائے اور سنجیدگی سے نگرانی کی جائے، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا’۔
انھوں نے پولیس تھانوں میں فوری اصلاحات کے نفاذ کی تجویز دینے کے ساتھ ساتھ پولیس تھانوں میں انفرادی سطح پر کارکردگی کی نگرانی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
احمد چنائے کا کہنا تھا کہ ‘ہماری پولیس اس مسئلے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اس سلسلسے میں انھیں وسائل مہیا کیے جانے چاہئیں اور تھانوں کی سطح پر پولیس پٹرولنگ کے نظام کو موثر بنایا جانا چاہیے’۔
عمران ایوب

Street crime in Karachi

KARACHI POSTAL CODES

KARACHI POSTAL CODES

 
Area Postal Codes
Airport 72500
Baldia Town 75760
Board of Secondary Education 75150
Cantt 75530
City GPO 7100
Clifton 75600
COD 75250
Darul-uloom 75180
Defense Society 75500
Export Processing Zone 75150
F.B.Area 75950
Gulshan-e-Iqbal 75300
Habib Bank 75650
Hotel Metropole 75520
JPGMC 75510
Karachi GPO 74200
Karachi University 75270
Keamari 75620
Korangi Creek 75190
Korangi GPO 74900
Landhi 75160
Liaquatabad 75900
Liyari 75660
Malir Cantt 75070
Malir City 75050
Manghopir 75890
Manora 75640
Mari Pur (CE) 75780
Mari Pur (FA) 75750
Mehmoodabad 75460
Model Colony 75100
Murad Memon Goth 75040
National Cement Industry (DALMIA) 75260
Nazimabad GPO 74700
New Karachi 75850
New Town GPO 74800
North Nazimabad GPO 74600
Orange Town 75800
P.C.S.I.R 75280
P.E.C.H.S 75100
Pakistan Machine Tool Fatory 75760
Pakistan Naval Armament Depot 75790
Pakistan Steel Mills 75800
Pakistan Steel Mills Town Ship 75200
Port Muhammad Bin Qasim 75020
Quaidabad 75120
Rafa-e-Aam Society 75210
S.I.T.E 75700
Saddar GPO 74100
Shah Faisal Colony 75230
Shahra-e-Faisal 75350
Sher Shah Colony 75730
Sindh Governor House 75580
Nishter Road 74550
Enhanced by Zemanta

Karachi Fire Fighting Services Phone Numbers

Karachi Fire Fighting Services

Name Address Phone No.
Emergency 16
Chief Fire Officer KMC 37773252
Central Fire Station 99215007, 99215008
Central Station 37724891, 37724892
Baldia Town Fire Station 32562245
Fire Station PIA 37773252
Gas Fire Station 34934881, 34934882
KPT Fire Station Kemari 272042, 272043
KPT Fire Station TPX 32413968
KPT Fire Station West Wharf 32314488
KPT Fire Station OP-L 272182
Landhi Fire Station 35015888, 35014396
Lyari Fire Station 37527521, 37528090
Manzoor Colony Fire Station 35804094
Nazimabad Fire Station 36649983, 3620778
New Karachi Fire Station 36974020
Orangi Fire Station 36651222, 36650515
Saddar Fire Station 32259864 -32257960
Shah Faisal Fire Station 9218037
S.I.T.E Fire Station 32562245 – 32562243
Enhanced by Zemanta